پنڈی پوسٹ نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ

ضیاء الرحمن ضیاء/پنڈی پوسٹ ایک علاقائی اخبار ہے۔ جہاں تک اس اخبار کی فی الحال رسائی ہے وہاں تک اس کی مقبولیت بھی ہے۔ علاقے میں اور بھی بہت سے اخبارات ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر شائع ہو رہے ہیں لیکن پنڈی پوسٹ اخبار ایک منفرد پہچان رکھتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اخبار انتظامیہ کی طرف سے اچھے لکھاریوں کی عزت اور قدر کی جاتی ہے۔ اس میں تحریر کے معیار کو دیکھا جاتا ہے، اخبار میں تحریر کی اشاعت کے لیے کسی واسطے، سفارش اور جان پہچان کی ضرورت نہیں پڑتی۔ راقم الحروف کو کم از کم اس کا بخوبی اندازہ بلکہ مشاہدہ ہے۔ نئے لکھاریوں کے لیے اخبارات میں جگہ بنانا بہت مشکل ہوتا ہے، وہ تحریریں ارسال کرتے رہتے ہیں لیکن شائع نہیں ہوتیں جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اکثر اخبارات میں تعلق اور واسطے کی بنا پر تحریریں اور کالم شائع ہوتے ہیں جبکہ نئے کالم نگار جن کی اس شعبے میں خاطر خواہ جان پہچان نہیں ہوتی ان کے لیے کسی بھی اخبار میں تحریریں شائع کرانا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ ابتداء میں لکھاریوں کو اس قسم کی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک تو تجربہ نہیں ہوتا کہ اخبارات میں تحریریں کس طرح ارسال کی جائیں اور دوسرا ابتدائی دور میں کالم وغیرہ لکھنے میں محنت بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے جب اتنی محنت کے بعد بھی کالم و مضامین اخبارات میں جگہ حاصل نہ کر سکیں تو وہ دل شکستہ ہو جاتے ہیں۔ بہت سے اخبارات تعلق واسطہ کی بنا پر غیر معیاری تحریریں بھی شائع کرتے رہتے ہیں لیکن ایسے اچھے لکھاریوں کی معیاری اور بر محل تحریریں شائع کرنے سے گریز کرتے ہیں جن کی کوئی سفارش یا اخبار کے کسی بڑے عہدیدار تک رسائی نہیں ہوتی۔ پنڈی پوسٹ اخبار میں ان سب باتوں سے قطع نظر معیاری تحریروں کو جگہ دی جاتی ہے۔ نئے کالم نگار اگر ابتداء ہی میں خوش قسمتی سے پنڈی پوسٹ اخبار کا رخ کر لیں تو انہیں کافی بہتر نتائج ملتے ہیں۔ اس اخبار میں تحریروں کی اشاعت کے لیے مضمون نویسوں کو صرف اپنی تحریر کے معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ کسی واسطے اور سند کی۔ کچھ چھوٹے اخبارات اچھی اچھی معیاری تحریروں کا وہ حال کر دیتے ہیں کہ دوبارہ تحریر ارسال کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ مثلا کبھی آپ کی بھیجی ہوئی تحریر کسی دوسرے کے نام سے شائع ہو جائے گی، کبھی آپ کا کالم لوگو، جو پہلے اس اخبار میں چھپتا رہا اب غائب ہو گا اور اس کی جگہ کوئی اور کالم لوگو آپ کا منہ چڑا رہا ہو گا، کبھی تحریر مکمل شائع نہیں ہوگی بلکہ جتنی جگہ ہو گی اتنی ہی تحریر کی اشاعت ہو گی۔ تحریر کو اپنی دستیاب جگہ میں سمونا بھی ایک فن ہوتا ہے کہ اگر تحریر پوری نہیں آرہی اور اسے کم کرنا بھی ہے تو اس طرح اس میں سے جملے حذف کیے جائیں کہ بات پوری ہو جائے اور قاری کو محسوس بھی نہ ہو لیکن یہ اخبارات جملہ بھی پورا نہیں ہونے دیتے اور تحریر مکمل کر کے چھاپ دیتے ہیں۔ پنڈی پوسٹ اخبار میں اس قسم کی غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔غلطیاں تو کسی سے بھی ہو سکتی ہیں بڑے بڑے اخبارات بھی غلطیاں کرتے ہیں۔ میں نے ایک مشغلے کے طوراخبارات کی غلطیاں جمع کرنے کا کام شروع کیا تھا جس میں بڑے بڑے نامور اخبارات کی غلطیاں بھی میں نے اپنے پاس ایک کمپیوٹر فولڈر میں جمع کی تھیں لیکن وہ غلطیاں کبھی کبھار ہو جاتی ہیں مگر بعض چھوٹے اخبارات ہر روز غلطیاں کرتے ہیں اور وہ بڑی مضحکہ خیز ہوتی ہیں۔ مگر علاقائی اخبارات میں پنڈی پوسٹ اخباراس قسم کی غلطیاں نہیں کر رہا۔ پنڈی پوسٹ میں نئے کالم نگاروں کے کالم بھی اتنے دیدہ زیب انداز میں شائع ہوتے ہیں کہ کالم نگار کو اپنی تحریر پر فخر محسوس ہونے لگتا ہے اور اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ بار بار اپنی تحریریں پنڈی پوسٹ اخبار کو ہی ارسال کرے۔ ا گر کالم احسن انداز سے شائع ہو تا ہے تو اس سے بھی نئے کالم نگاروں اور مضمون نویسوں کی بہت حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ پنڈی پوسٹ انتظامیہ لکھاریوں کے ساتھ ایک تعلق رکھتی ہے اور ان کی کافی عزت افزائی کرتی ہے۔ مختلف مواقع پر ان سے رابطہ بھی کرتی ہے اور انہیں اپنی تحریریں اور کسی خاص موقع کی مناسبت سے کوئی پیغام وغیرہ ارسال کرنے کے لیے یاد دہانی کراتی ہے۔ جب کسی اخبار کی انتظامیہ اور بالخصوص ایڈیٹر بلکہ چیف ایڈیٹر صاحب خود کسی چھوٹے یا نئے کالم نگار و مضمون نویس سے رابطہ کریں تو ان کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ ان کے دل میں اخبار کے بارے میں عزت پیدا ہوتی ہے، ان کا تعلق اخبار کے ساتھ مزید گہرا ہوجاتا ہے اور وہ اپنے لیے اسے بہت عزت سمجھتے ہیں۔ پنڈی پوسٹ اخبار کی یہ تمام خوبیاں نئے کالم نگاروں اور لکھاریوں کو مزید حوصلہ عطا کرتی ہیں اور وہ آگے ہی آگے بڑھنے کا عزم کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی صحافی اور کالم نگار پنڈی پوسٹ اخبار کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پنڈی پوسٹ اخبار کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ خواہش دل میں جاگزیں ہوتی ہے کہ اب اسے ہفت روزہ کی بجائے روزنامہ نہیں تو کم از کم سہ روزہ ہو جانا چاہیے۔ پنڈی پوسٹ اخبار کو سالگرہ مبارک ہو اللہ رب العزت اسے دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے، آمین۔
www.ziarehman.com

اپنا تبصرہ بھیجیں