پنڈی پوسٹ مایوسی کو امید میں بدل دیا

آج سے دس برس قبل ہفتہ روزہ پنڈی پوسٹ جب پوٹھوہار کی سرزمین پر نمودار ہوا تو اس کی آمد نے میری مایوسی کواُمید میں بدل دیا۔ اُن دنوں بے شمارجرائداور پرچے بہترین کام کر رہے تھے۔ دوسری جانب ملک پاکستان میں بے انتہا اخبارات اور رپورٹرز حضرات بلیک میلنگ کر کے حرام مال بٹورنے میں مصروف عمل ہیں۔ مگر یاد رہے کہ آج اس افراتفری کے دور میں بھی بہت سے اخبارات اسی معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیئے اپنا دن رات ایک کر کے اس عارضی اور آنے والی دائمی زندگی کے لیئے مال ومتاع اور بہترین احمال جمع کر رہے ہیں جن میں ایک نام پنڈی پوسٹ کا بھی ہے۔ اس ہفت روزہ کی ساری ٹیم ظالم کے خلاف ڈنکے کی چوٹ پر دوٹوک الفاظ میں رپورٹنگ کرتی ہے۔ اور اس پرچے کے کالم نگار حاکم وقت کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کچھ دن قبل کی بات ہے کہ ایک شخص نے مجھے فون کیا جس کا نام ندیم ہے۔کہنے لگاآپ کا ایک کالم پڑھا جس کا عنوان تھا”نئے مند رکی تعمیر اور ہمارا ایمان“۔ بس یہ کہ کر رونے لگا مجھے اس کی آواز سمجھ نہیں آ رہی تھی کیونکہ اس کی باتیں اور اس کے آنسوآپس میں اتحاد کر چکے تھے۔ لہذا میں نے فون بند کر دیا اور کچھ دیر بعد میں نے خود فون کیا اور رونے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ پنڈی پوسٹ کا یہ کالم جو آپ کے قلم سے تحریر کیا گیا ہے پڑھ کر میں حیران بھی ہوں اور آپ کی اورپنڈی پوسٹ کی انتظامیہ کی بہادری پر ششدر سا ہو کر رہ گیا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کیااس دور میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جو اپنی زندگی کی پرواہ کیئے بغیر حق سچ تحریر کر رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ ندیم بھائی نے پنڈی پوسٹ کے چیف ایڈیٹر عبدالخطیب چوہدری کا فون نمبر مجھ سے طلب کیا میں نے فوراََ دیا اور اس ایمان والے شخص نے چوہدری عبدالخطیب کو فون کر کے حوصلہ افزائی کی اور طویل اور بامقصد زندگی کی دُعاؤں سے نوازا۔ آج پنڈی پوسٹ کا عارضی مالک عبدالخطیب چوہدری اس کے رپورٹرز اور کالم نگار انتہائی مطمئین ہیں۔ کیونکہ یہ اس زندگی کی آخری سانس کو زہن میں رکھ کر تحریر کرتے ہیں اوراصل حقائق عوام تک پہنچاتے ہیں۔عبدالخطیب چوہدری کی زندگی بے شمار خاردار راستوں سے ہو کر آج کامیاب ترین ہے۔ غریب کی غربت ان سے دیکھی نہیں جاتی۔ ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ ان کی نظر سے گزرنے والا ہر
تنگ دست خوشحال ہو جائے۔ او ر اسے خوشحال کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ میرے خیال میں ہر انسان کی زندگی میں ایک وقت ضرور آتا ہے کہ جب اُسے دوسروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضرورت چاہے مالی ہو جسمانی ہو یا کسی بھی طرح کی۔ اور اس ضرورت کے دنوں میں آپ کے دوست خوب متعارف ہوتے ہیں اور رشتے دار بھی۔۔ چوہدری صاحب اپنے سینے میں ایک عام سا دل اور اس دل میں پتھر کی بجائے درد رکھنے والا ایک سادہ سا آدمی اور ایک عظیم انسان ہے۔ ایک دفعہ جو شخص ان سے جڑ جائے پھر وہ الگ ہو نہیں پاتا ان کی محنتوں کی بدولت۔ پنڈی پوسٹ کے چیف ایڈیٹر کی زندگی اس ایک پیراگراف کی طرح رواں دواں ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔”زندگی میں ترتیب پیدا کریں۔ کھانے اور سونے کا وقت طے کریں۔غیر ضروری خواہشات اور دباؤ سے دور رہیں۔ ورزش کریں اور ایک خاص بات وہ یہ کہ اپنی زندگی میں دینا شروع کر یں۔ آپ پیسے دیں، کسی کو وقت دیں، کسی کو مشورہ دے دیں، کسی کو راستہ دے دیں، کسی کو علم دے دیں۔ دیکھیں دینے کی خصوصیت اللہ کی ہے۔ جب آپ دینا شروع کر دیتے ہیں تو آپ کی نسبت رحمان سے جڑ جاتی ہے۔ پھر آپ پریشان اور ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے۔ جتنا زیادہ آپ دینے والے بنیں گے اتنی زیادہ آپ کی زندگی میں خوشیاں آنا شروع ہو جائیں گی۔ آپ طے کر لیں کہ ہر مہینے کسی کو کچھ نہ کچھ دیں گے“۔یہ شخص دیتا ہے اور پھر بے بہا اپنے ربّ سے وصول کرتا ہے۔ بظاہر یہ عام سا انسان بڑا عظیم انسان ہے۔ جس نے ساری زندگی حق سچ کا ساتھ دیا اور حلال کمایا۔ آج پنڈی پوسٹ کی دسویں سالگرہ پنڈی پوسٹ کی پہلی سالگرہ کی یاد تازہ کر رہی ہے کہ جب چند افراد اس سوچ میں تھے کہ نہ جانے کونسا پرچہ اس ہفت روزے کا آخری پرچہ ہو گا۔ربّ رحیم سے دُعا ہے کہ وہ پنڈی پوسٹ کو ایسے ہی روشنی کا پہاڑ بنائے رکھے اور ایسے ہی حق گوئی پر قائم رکھے۔ آمین۔ یاد رہے کہ کسی بھی گھر کا سر پرست اپنے گھر والوں کے کردار پر خوب محنت کرتا ہے۔عبدالخطیب نے اپنے وہ ہاتھ اور وجود آج بھی سنبھال رکھا ہے کہ جو ماضی میں کھردرے راستوں پر چل چل کر مزید ریزہ ریزہ ہو چکے ہیں۔یہ رنگین دُنیا عبدالخطیب کو جب بھی اپنی جانب بلاتی ہے تو یہ شخص اپنی رنگین زندگی یعنی لہو رنگ ماضی آج کی رنگین دُنیا کے سامنے رکھ دیتا ہے اور یہ عارضی اور رنگین دُنیا اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ اس طرح یہ سادہ ساآدمی آج بھی سادہ ترین ہے مگر اس چالاک دُنیا کو ہر دور میں مات دیتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اپنی زندگی کے تلح حقائق کی بناء پر پنڈی پوسٹ کا پیغام اپنے قارئین کے نام اشعار کی صورت میں ملاحظہ فرمائیں۔
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خواب ہو جاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا
سرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جاؤ گے
اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مر مر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
خواب گاہوں سے نکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو
دھوپ اتنی تو نہیں ہے کہ پگھل جاؤ گے
تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو
بھیڑمیں سست چلو گے تو کچل جاؤ گے
تم ہو ایک زندہ جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤ گے

اپنا تبصرہ بھیجیں