بابر اورنگزیب چوہدری
بارش کے بادل چھا جائیں تو جہاں خوشی اور رحمت کی امید ہونی چاہیے، وہاں پنجاب کے لوگوں کے دل خوف سے کانپنے لگتے ہیں۔ یہ خوف بے جا نہیں۔ حالیہ سیلاب (2025) نے پھر لاکھوں افراد کو اجاڑ دیا ہے۔ 12 لاکھ سے زائد لوگ متاثر، ڈھائی لاکھ بے گھر اور ہزاروں گا¶ں پانی میں ڈوب گئے۔ یہ منظر کوئی پہلی بار نہیں دیکھا گیا۔ 2010، 2014، 2022 اور اب 2025 ہر چند سال بعد پنجاب ایک نئی آفت سے دوچار ہوتا ہے۔ چنیوٹ کے ایک کسان غلام شبیر کی بات آج بھی کانوں میں گونجتی ہے:
”ہم ہر سال سب کچھ دوبارہ بناتے ہیں اور ہر سال پانی بہا لے جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کب تک یہ سب سہتے رہیں گے؟“یہ سوال صرف ایک کسان کا نہیں، یہ ہر اس ماں کا سوال ہے جو اپنے بچوں کو ریلیف کیمپ میں بھوکا سلاتی ہے، ہر اس بزرگ کا سوال ہے جس نے اپنی جوانی کی محنت کو پانی میں بہتا دیکھا، اور ہر اس مزدور کا سوال ہے جو اپنے گا¶ں کو چھوڑ کر بے سروسامانی میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ ہماری یادداشت کمزور ہے یا شاید ہم مسائل کو بھلا دینے میں جلدی کرتے ہیں۔ 2010 کا سیلاب یاد کریں، جب 60 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے۔ 2014 کا سیلاب، جب ڈھائی ملین لوگ متاثر ہوئے۔ 2022 کا وہ تباہ کن سال، جب 1,700 سے زائد افراد ہلاک اور ملک کو 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اب 2025 میں پھر وہی منظرنامہ دہرا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب سیکھیں گے؟ کب اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں گے؟ ڈیم کیوں نہیں بنتے؟ وارننگ سسٹم کیوں نہیں مضبوط ہوتا؟ درخت کیوں کاٹے جاتے ہیں؟ دریائی کناروں پر بستیاں کیوں آباد کی جاتی ہیں؟ سیلاب اب محض ایک ”قدرتی آفت” نہیں رہا، یہ انتظامی نااہلی اور پالیسی کی ناکامی کا دوسرا نام بن چکا ہے۔ ہمیں ڈیم بنانے ہوں گے، پشتے مضبوط کرنے ہوں گے، ماحولیاتی توازن بحال کرنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر متاثرین کی بحالی کے لیے مستقل منصوبے بنانے ہوں گے۔ امداد کے چند ٹرک اور خیمے مسئلے کا حل نہیں ہیں۔کیا ہم آبی ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے آگے نہیں بڑھ سکتے؟ہم کیوں اس قیمتی ذخیرے کو ہر سال ضائع کر دیتے ہیں اور پھر شدید گرمیوں میں پانی کی قلت کا سامنا بھی کرتے ہیں کیا ہمارے اندر یہ اہلیت اور صلاحیت نہیں کہ ہم ان قیمتی ذخائر سے استفادہ حاصل کر سکیں انھیں محفوظ بنا کر سستی ترین بجلی بنا سکیں ؟زرعی استعمال میں لا سکیں اس بے بہا نعمت جو ہمارے لئے ہر سال عذاب بن جاتی ہے کو کنٹرول کرنے کے لیے ملک بھر میں ڈیمز بنانے کا اعلان کر دیں ۔ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس آفت کے فوری اثرات کے بعد ایک طویل المدتی بحران ہمارے سامنے ہے۔ لاکھوں افراد کے گھروں کی تعمیر نو، زرعی زمینوں کی بحالی، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی، اور متاثرین کی ذہنی و جسمانی بحالی ایک طویل مدتی چیلنج ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک پانچ سالہ سیلاب بحالی پروگرام تشکیل دے جس میں ماہرین ماحولیات، زرعی ماہرین، شہری منصوبہ ساز، اور مقامی نمایندے شامل ہوں۔ اس پروگرام کے تحت زرعی قرضوں کی معافی، کسانوں کو نئے بیج اور کھاد کی فراہمی، دریا کنارے محفوظ پشتوں کی تعمیر، اور خطرناک علاقوں سے آبادیاں منتقل کرنے جیسے اقدامات کیے جائیں۔سیلاب سے متعلق ایک اور اہم پہلو غذائی تحفظ کا ہے۔ پنجاب چونکہ پاکستان کا سب سے بڑا زرعی صوبہ ہے، یہاں گندم، چاول، گنا، کپاس اور سبزیوں کی پیداوار ملکی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ جب لاکھوں ایکڑ زمین سیلاب کی نذر ہو جائے گی، تو اس کا براہ راست اثر نہ صرف مقامی غذائی ضروریات پر پڑے گا بلکہ برآمدات، زرمبادلہ اور افراطِ زر پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایسے میں وزارتِ خزانہ، وزارتِ خوراک اور اسٹیٹ بینک کو ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کرنی چاہیے تاکہ آنے والے مہینوں میں غذائی قلت اور مہنگائی جیسے بحران سے بچا جا سکے۔آج کا کالم میں ایک اور سوال کے ساتھ ختم کرنا چاہتا ہوں کیا پنجاب کے باسیوں کو ہر سال یہی سوچ کر بارش کے بادل دیکھنے ہوں گے کہ ”اب کی بار ہمارا کیا بنے گا؟“اگر ہم نے آج عملی قدم نہ اٹھایا تو یہ سوال آنے والی نسلوں کا نوحہ بن جائے گا
جہلم کا بہادر بیٹا علی عمران مادرِ وطن پر قربان ہو گیاایس ایس جی کمانڈو…
گوجرخان تھانہ گوجرخان کے باہر کھڑا کچہری کلرک عمان واجد کا قیمتی 125 موٹر سائیکل…
بحریہ ٹاؤن گردہ ٹرانسپلانٹ کیس میں ڈاکٹر منظور حسین کی ھائی کورٹ سے ضمانت ریجیکٹوسیم…
کلر سیداں (یاسر ملک) تھانہ کلر سیداں پولیس نے جعل سازی اور فراڈ کے الزام…
کلر سیداں (یاسر ملک) کلر سیداں پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے دو افراد کو…
راجہ طاہر محموددنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بڑی بڑی تہذیبیں دریاؤں کے کنارے آباد…