پنجاب میں جائیداد کے تحفظ کا نیا باب

تحریر: شہزاد حسین بھٹی
حکومتِ پنجاب نے ایک دیرینہ اور ضروری قدم اٹھاتے ہوئے پنجاب پروٹیکشن آف اونرشپ آف اِموویبل پراپرٹی آرڈیننس 2025ءنافذ کیا ہے۔ ایسے وقت میں جب زمینوں کے تنازعات، جعلی کاغذات اور ناجائز قبضے عوام کے انصاف پر اعتماد کو مجروح کر رہے تھے، یہ قانون انتظامی عزم اور قانونی اصلاحات کی علامت کے طور پر سامنے آیا ہے۔برسوں سے پنجاب کے شہری، خصوصاً بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اور دیہی علاقوں کے زمیندار، نام نہاد قبضہ گروپوں کے ظلم کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ یہ گروہ قانونی کمزوریوں، تاخیری عدالتی عمل اور سرکاری سستی کا فائدہ اٹھا کر قیمتی زمینوں پر قبضہ کر لیتے تھے۔ نیا آرڈیننس انہی خامیوں کو بند کرنے کی کوشش ہے، جس کے ذریعے ایک سادہ، منظم اور مدت بند نظام کے تحت انصاف کی فراہمی ممکن بنائی گئی ہے۔اس قانون کی بنیاد ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی (Dispute Resolution Committee) ہے، جو جائیداد سے متعلق جھگڑوں کو فوری اور منصفانہ طور پر نمٹانے کی ذمہ دار ہے۔ اس کمیٹی کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ہر درخواست کو نوّے دن کے اندر نمٹا دے، اور ضرورت پڑنے پر مزید نوّے دن کی توسیع دے سکے۔ یہ واضح مدت وہ شفافیت اور تیزی لاتی ہے جو ماضی کے عدالتی نظام میں عنقا تھی۔قانون میں غیر منقولہ جائیداد کی تعریف غیر معمولی وضاحت سے کی گئی ہے، جس میں زمین، عمارتیں اور زمین سے مستقل طور پر جڑی ہوئی چیزیں شامل ہیں، مگر درخت، فصلیں اور پھل اس میں شامل نہیں۔ یہ وضاحت ان قانونی ابہامات کو دور کرتی ہے جو دیہی مقدمات میں اکثر پیچیدگیاں پیدا کرتی تھیں۔
اسی آرڈیننس کے تحت ایک پراپرٹی ٹریبونل قائم کیا گیا ہے جو کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق اور عملدرآمد کو یقینی بنائے گا۔ یہ دو سطحی نظام، کمیٹی اور ٹریبونل رفتار اور شفافیت دونوں کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور انصاف کے عمل کو مؤثر بناتا ہے۔قانون کی ایک اہم شق یہ ہے کہ اسے دیگر تمام متصادم قوانین پر فوقیت حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی اور قانون میں تضاد پایا جائے تو اس آرڈیننس کے احکامات نافذ العمل ہوں گے۔ یہ پہلو نہ صرف قانونی وضاحت لاتا ہے بلکہ حکومت کے عزم کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ اب جائیداد کے معاملات میں ابہام کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔یہ قانون صرف تنازعات کے حل تک محدود نہیں بلکہ پیشگی تحفظ کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے۔ اگر کسی مالک کو خدشہ ہو کہ اس کی جائیداد پر قبضہ ہونے والا ہے تو وہ ڈپٹی کمشنر کو درخواست دے سکتا ہے، جو معاملہ فوراً کمیٹی کو بھیج دے گا۔ اس طرح شہریوں کو پہلے سے اپنے حق کے تحفظ کا قانونی اختیار مل جاتا ہے۔ایک جدید اور سہل پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی فریق ذاتی طور پر پیش نہیں ہو سکتا تو وہ آن لائن پیشی کے ذریعے اپنی بات رکھ سکتا ہے۔ یہ شق خاص طور پر بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے سہولت پیدا کرتی ہے، جنہیں اپنے آبائی گھروں یا زمینوں کے تحفظ کے لیے عدالتوں تک رسائی میں مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔
اس قانون کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ مصالحانہ رویّے کو فروغ دیتا ہے۔ ماضی کے برعکس، اب کمیٹیوں کو صلح اور گفت و شنید کے ذریعے تنازعات ختم کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ یہ طرزِ فکر بین الاقوامی رجحان Alternative Dispute Resolution (ADR) کے عین مطابق ہے، جہاں مکالمہ عدالت سے بہتر نتائج دیتا ہے۔البتہ، ہر قانون کی طرح اس آرڈیننس کی کامیابی بھی اس کے عملدرآمد پر منحصر ہے۔ اگر کمیٹیوں اور ٹریبونلز میں دیانت دار، قابل اور غیر جانب دار افسران تعینات کیے گئے تو یہ قانون واقعی ایک سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے، ورنہ یہ بھی دیگر قوانین کی طرح کاغذوں میں دفن ہو جائے گا۔اگر حکومت نے خلوص نیت سے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا، تو پنجاب پروٹیکشن آف اونرشپ آف اِموویبل پراپرٹی آرڈیننس 2025ءصوبے میں جائیداد کے نظام کو نئی جہت دے سکتا ہے۔ یہ نہ صرف عدالتوں کا بوجھ کم کرے گا بلکہ قبضہ مافیا کی طاقت کو توڑے گا اور عوام میں قانون پر اعتماد بحال کرے گا۔ ممکن ہے یہی قانون دوسرے صوبوں کے لئے ایک ماڈل بن جائے۔