پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں

بلدیاتی اداروں کی معیاد31دسمبرکو ختم ہوچکی ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے رمضان المبارک کے اختتام اور نئی حلقہ بندیوں کے حتمی تعین کے بعد ملک میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کا عندیہ دیا ہے جس سے سیاسی جماعتوں کیجانب سے سیاسی جوڑتوڑ میٹنگز اور عوامی رابطہ مہم کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے حکمران جماعت تحریک انصاف جو تین سال سے زائد ریاستِ مدینہ کا خواب آنکھوں میں لیے پھر رہی ہے اور ماضی میں بلدیاتی انتخابات اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے حوالے سے بلند وبانگ دعوے کرتی آئی ہے تاہم پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی طرح موجودہ حکمران جماعت نے بھی نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے حوالے سے کافی دیر کردی ہے بعض ناقدین کیجانب سے ابھی بھی پنجاب حکومت کے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے وعدے پر خدشات اپنی جگہ موجود ہیں تاہم یہ ہمارے ملک کی کمبختی ہے کہ پوری قوم مختلف حکومتوں کے ادوار میں آزمائے گئے تجربات کو اب ایک بھیانک نتائج کی صورت میں بھگت رہی ہے ماضی کی حکومتوں کی ٹال مٹول پالیسوں سے بلدیاتی انتخابات ہمیشہ التوا کا شکار ہوئے ہیں چونکہ مقامی حکومتوں کا قیام اب صوبائی حکومت کے ماتحت ہے مگرصوبائی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ بلدیاتی اداروں کو اتنا بااختیار بنادیا جائے کہ جس سے ممبر قومی وصوبائی اسمبلی اور وزراء کی سیاسی اہمیت کم اور انکے اختیارات میں کوئی کمی واقع ہو ان اقتدار کی کرسی پر بیھٹے اراکین کو یہ خوف بھی مسلسل کھائے جارہا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے قیام سے انکا سیاسی کردار کافی حد تک محدود ہوجائے گا اور دوسری طرف ان اراکین کو ترقیاتی فنڈز کا نہ ملنا بھی بلدیاتی انتخابات کی تاخیر کی ایک اہم وجہ ہے اس بحث سے قطع نظر ملک میں بلدیاتی نظام کی فعالیت اور نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی عوامی مفادات سے جڑی ہے کیونکہ ممبر صوبائی وقومی اسمبلی کی نسبت بلدیاتی نمائندے چوبیس گھنٹے عوام کے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور عوامی مسائل کو سمجھتے اور انہیں حل کرنے میں بھی دن رات کوشاں اور ہر لمحہ عوام کو دستیاب رہتے ہیں آمدہ بلدیاتی انتخابات گو مخمصے کا شکار ہیں تاہم حکومتی نقطہ نظرکیمطابق آنے والے بلدیاتی الیکشن حکمران جماعت کی کارگردگی کو دیکھتے ہوئے اس کے مفاد میں نظر نہیں آرہے بلکہ اس حوالے سے ماضی قریب میں خیبرپختونخواہ کے حالیہ انتخابات کے نتائج سے بھی حکومتی کارگردگی پر عوام میں ایک منفی پیغام جاتا ہے دوسری طرف بلدیات کے انتخابات میں حکمران جماعت کو اپنے موزوں اور عوام میں مقبول امیدواروں کا چناؤ کرنا بھی ایک اہم مسلہ ہوگا دوسری طرف مسلم لیگ ن کی قیادت جسکی سیاست تجربہ کار ہاتھوں میں ہے وہ عوام میں ملکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنی قربت کا تاثر دے کر سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں مصروف عمل ہے حزب اختلاف ان حالات میں حکومتی کارگردگی کے منفی پہلوؤوں کو عوام میں اجاگر کرکے اپنی سیاسی حمایت اور ہمدردیاں حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی جبکہ یوسی کی سطح پرمسلم لیگ کے تنظیمی معاملات بھی حکمران جماعت کی نسبت بہترانداز سے آگے بڑھ رہے ہیں اور کارکنوں میں یکسوئی کا عنصر نمایاں ہے جبکہ بظاہر یوسی سطح پر بھی سیاسی کارکنان کے مابین اختلافات دور دور تک کہیں نظر نہیں آتے جبکہ دوسری طرف حکمران جماعت کو تحصیل اور یونین کونسل سطح پر تنظیمی امور کو چلانے میں پارٹی کے اندر گروپ بندی اختلاف رائے جیسے مسائل کا سامنا ہے تاہم ان دونوں جماعتوں کی نسبت دائیں بازو کی مذہبی جماعت ٹی ایل پی جو اپنی احتجاجی روش کو ترک کرکے ملکی آئین وقانون کے دائرہ اختیار میں رہ کر ووٹ کے زریعے عوام سے رجوع کرنے اور جمہوری محاذ پر سیاسی جنگ لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے جوکہ ایک درست سمت کے تعین میں ایک درست فیصلہ ہے مذہبی اور عوامی حلقوں میں انکے اس جمہوری طرزعمل کو ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھاجارہا ہے اور یہی طریقہ کاربلدیاتی انتخابات میں ٹی ایل پی کے امیدواروں کو سیاسی طور پر مذہبی حلقوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کافی معاون ومددگار ثابت ہوگا اور آمدہ بلدیاتی انتخابات میں اس پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں دوسری طرف آمدہ بلدیاتی انتخابات کے انعقادکے تناظر میں بعض مایوس سیاست دانوں نے ہمیشہ کیطرح پانی میں مدانی گھمانے کی مشق شروع کردی ہے اور اس حوالے سے اپنی من پسند سیاسی خیمہ بستیاں بھی قائم کرلی ہیں جنکا مقصد اپنے حریفوں کیساتھ سیاسی مخاصمت کو طول دینے کی خاطر سادہ لوح سیاسی ورکرز کو کھجل خوار کرنے کی غرض سے انہوں نے بھی اپنی چھتری تلے اپنے حامی جمع کرنا شروع کردیے ہیں تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود انکے سیاسی مستقبل کا سورج اب ہمیشہ کیلیے غروب ہوچکا ہے چونکہ جمہوری طرز حکومت میں بلدیاتی ادارے بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور بلدیاتی الیکشن کے انعقاد سے عوام کو اپنے مسائل کے حل کی توقعات بھی بڑھ جاتی ہیں تاہم بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاست اور انتخابات میں کامیابی صرف اور صرف مفادات اور اقتدار کے حصول کی جنگ ہے جہاں اقتدار کی اقتدار کی کرسی نظر آتے ہی عوامی فلاح کے وعدے بھول جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام ان مفاد پرست سیاستدانوں کی تقسیم کرنے کی پالیسی کو باربارمسترد کرچکے ہیں اور انکی کارگردگی سے مایوس ہوکر عوام نے غیرجمہوری قوتوں کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے تو اب یہ منتخب جمہوری حکومتوں اور برسراقتدار حکمرانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ریلیف کی صورت میں عوام کا کھویا ہوا اعتمادبحال کریں اور بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنائیں تاکہ نچلی اور مقامی سطح پر عوامی مسائل جلد حل ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں