چونترہ، راولپنڈی — جولائی کی غیر معمولی بارشوں نے پوٹھوہار کے میدانی علاقوں میں تباہی مچائی، جس کے نتیجے میں سواں میں آئے سیلاب نے چونترہ، سہال، اڈیالہ، چکری، اور دیگر دیہی علاقوں میں کسانوں کی کھڑی فصلیں شدید متاثر ہوئیں۔ مکئی، جو اس وقت پک کر تیار کھڑی تھی، سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ اس کے علاوہ مسلسل پانی کے بہاؤ سے زمین میں کٹاؤ پیدا ہوا اور کھیتوں میں گہرے گھڑے بن گئے، جس سے زرعی زمین کی ساخت ہی تبدیل ہو گئی۔
فصلیں بھی گئیں، زمین بھی بگڑ گئی
کسانوں کے مطابق کئی جگہوں پر کھیت ایسے تباہ ہوئے ہیں کہ آئندہ فصل کی تیاری بھی ممکن نہیں رہی۔ “ہم نے مہنگے داموں بیج اور کھاد خرید کر فصل تیار کی تھی، اب نہ صرف فصل گئی بلکہ زمین بھی قابلِ کاشت نہیں رہی،” ایک مقامی کسان کا کہنا تھا۔
حکومت خاموش، کسان پریشان
اس قدرتی آفت کے باوجود تاحال پنجاب حکومت یا متعلقہ اداروں کی جانب سے کوئی سروے، امدادی اعلان یا عملی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ صورتحال اس خدشے کو جنم دے رہی ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی پوٹھوہار کو نظرانداز کر دیا جائے گا، جب کہ وسطی اور جنوبی پنجاب کے کسانوں کے لیے فوری پیکجز اور وزراء کے دورے ایک معمول کی بات ہوتے ہیں۔
کیا پوٹھوہار پنجاب کا حصہ نہیں؟
یہ سوال اس وقت ہر کسان کی زبان پر ہے۔ کیا پوٹھوہار کے کسانوں کو بھی وہی حقوق حاصل نہیں جو دیگر علاقوں کے کسانوں کو ہیں؟ کیا چونترہ، سہال، اور راولپنڈی کے دیہی علاقے پنجاب کے بجٹ میں شامل نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اور اگر ہاں تو ان کے ساتھ بار بار یہ امتیازی سلوک کیوں روا رکھا جاتا ہے؟
فوری اقدامات کی ضرورت
کسانوں، مقامی نمائندوں، اور سماجی تنظیموں نے حکومتِ پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ:
متاثرہ علاقوں میں فوری زرعی سروے کرایا جائے
فصلوں کے نقصان کا ازالہ کیا جائے
کھیتوں کی بحالی کے لیے خصوصی فنڈ جاری کیے جائیں
پوٹھوہار کے کسان پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی محنت اور قربانیوں کو نظر انداز کرنا کسی بھی طرح انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں۔ حکومتِ پنجاب کو چاہیے کہ وہ پوٹھوہار کے کسانوں کی آواز سنے، ان کے نقصانات کا ازالہ کرے اور اس خطے کو وہ توجہ دے جس کا وہ برسوں سے منتظر ہے