پاکستان کا ایک المیہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک کوئی ایک بھی ایسی حکومت نہیں آئی جسے ہم دل سے “تعلیم دوست” کہہ سکیں۔ سیاست دانوں کی سب سے بڑی خواہش یہی رہی ہے کہ یہ قوم جاہل ہی رہے، تاکہ یہ اپنے ہی مسائل میں الجھی رہے، روٹی، بجلی، پانی اور نوکری کے چکر میں پڑی رہے، اور حکمران سکون سے اپنی سیاست کا کھیل کھیلتے رہیں۔
اب ذرا پاکستانی تعلیمی کیلنڈر پر نظر ڈالیں تو حیرت ہی نہیں، ہنسی بھی آتی ہے۔ ہمارے ہاں سال کا آغاز ہی کسی نہ کسی چھٹی سے ہوتا ہے۔ ایک طرف گرمیوں کی چھٹیاں — جو کبھی دو مہینے کی ہوتی تھیں، اب بڑھتے بڑھتے تین مہینے تک پہنچ گئی ہیں — دوسری طرف سردیوں کی چھٹیاں، جو بقول محکمہ تعلیم، بچوں کو “سردی سے بچانے” کے لیے دی جاتی ہیں، مگر درحقیقت زیادہ تر اس لیے کہ ہیٹر کے بل حکومت کے ذمے نہ آئیں۔
پھر تہواروں کی چھٹیاں — عید الفطر، عید الاضحیٰ، عید میلاد النبیﷺ، محرم، یومِ پاکستان، یومِ اقبال، یومِ قائد، لیبر ڈے، کشمیر ڈے، بسنت (جب غیر اعلانیہ چھٹی ہو جاتی ہے)، اور وہ اچانک آنے والی “دھرنوں کی چھٹیاں” جن میں طلبہ کے لیے سب سے خوش خبری یہ ہوتی ہے کہ کل سکول نہیں کھلے گا۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اسکولز میں سالانہ اوسطاً 150 سے 170 دن کی ہی پڑھائی ہو پاتی ہے، باقی سب دن چھٹیوں یا کسی نہ کسی تعطیل میں گزر جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سالانہ 220 سے 240 دن تک تعلیمی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ یہی فرق ہے کہ وہ قومیں آگے ہیں، اور ہم پیچھے… بلکہ کبھی کبھار تو لگتا ہے کہ ہم پیچھے بھی نہیں جا رہے، بس کھڑے کے کھڑے ہیں۔
اب تازہ واردات سنیے۔ پنجاب کے معزز وزیرِ تعلیم (جنہیں شاید “وزیرِ چھٹیاں” کہنا زیادہ مناسب ہے) نے فرمایا ہے کہ گرمیوں کی چھٹیاں یکم ستمبر تک بڑھا دی گئی ہیں۔ وجہ؟ نہ کوئی ہنگامی صورتِ حال، نہ کوئی تعلیمی پلان — بس حکم جاری ہوا اور سکول بند!
یہ فیصلہ سنتے ہی مجھے لگا کہ اب تو حکومت کو سنجیدگی سے ایک قانون بنانا چاہیے: “پاکستان میں تعلیمی ادارے سال میں صرف امتحان والے دن کھولے جائیں، باقی پورا سال بچے گھر بیٹھ کر ٹک ٹاک، پب جی اور انسٹاگرام سے ہی علم حاصل کریں”۔
یہ مذاق نہیں، حقیقت یہ ہے کہ جب آپ بچوں کے تعلیمی تسلسل کو بار بار توڑتے ہیں تو ان کی ذہنی نشوونما پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ جو سبق وہ لگاتار پڑھ کر تین دن میں سمجھ سکتے ہیں، وہ بار بار چھٹیوں کے وقفے کے بعد تین ہفتے میں بھی مشکل سے یاد ہوتا ہے۔
اسلام میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے” (ابن ماجہ)۔
خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے تھے: “اپنے بچوں کو تیر اندازی، تیراکی اور گھڑ سواری سکھاؤ، اور انہیں اچھا ادب و علم دو”۔
غزوہ بدر کے بعد قیدیوں کو رہا کرنے کی ایک شرط یہ رکھی گئی کہ وہ مدینہ کے دس دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں۔ یہ تھا ہمارے اسلاف کا تعلیمی وژن۔

آج ترقی یافتہ قوموں کا حال دیکھیں — جاپان میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد بچے کھلے میدانوں اور ٹوٹی عمارتوں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر قوم کو دوبارہ کھڑا کرنا ہے تو ہتھیار نہیں، قلم اٹھانا پڑے گا۔ جرمنی، کوریا، اور فن لینڈ جیسے ممالک کے تعلیمی کیلنڈر میں غیر ضروری تعطیلات کا تصور نہیں۔
لیکن ہمارے ہاں تعلیم کے راستے میں کبھی موسم، کبھی بجلی، کبھی دھرنے، کبھی وزیر کا حکم… اور کبھی محض “مزاج” آڑے آ جاتا ہے۔
آخر میں میری حکومت سے ایک مودبانہ گزارش ہے
اگر واقعی تعلیم اتنی غیر ضروری لگتی ہے، تو براہِ کرم “سکول بند کرو مہم” کا باضابطہ آغاز کر دیں۔ تاکہ کم از کم ہم والدین کو یہ خوش فہمی نہ رہے کہ ہمارے بچے پڑھ رہے ہیں۔ ورنہ موجودہ صورتحال میں تو بچے چھٹیاں گننے کے ماہر تو بن جائیں گے، لیکن پڑھائی کے نام پر صرف تاریخ یاد رکھیں گے کہ “سکول کب کھلنے تھے اور کب نہیں کھلے”۔
تعلیم کو ترجیح دیجیے… چھٹیوں کو نہیں