پلی بارگین ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت کسی فوجداری مقدمے میں ملزم اور استغاثہ کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے کہ ملزم اپنا جرم تسلیم کر لیتا ہے بدلے میں اسے کم سزا یا کم سنگین جرم کے تحت سزا دی جاتی ہے۔ یہ تصور سب سے پہلے امریکہ میں 19ویں صدی کے آخر میں سامنے آیا اور 1970 میں امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے Brady v. United States میں اسے آئینی حیثیت دی گئی۔ بعد ازاں یہ دنیا کے کئی ممالک میں اپنایا گیا۔ پاکستان میں پلی بارگین کا تصور پہلی بار 1999 میں قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس کے تحت متعارف ہوا، جس کی شق 25 کے مطابق ملزم بدعنوانی سے حاصل شدہ رقم واپس کرنے پر کم سزا یا معافی حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم، پلی بارگین کرنے والا شخص مستقبل میں کسی سرکاری عہدے کے لیے نااہل قرار پاتا ہے۔ اس نظام کا مقصد عدالتی بوجھ کم کرنا، مقدمات کا جلد تصفیہ کرنا اور قومی وسائل کی بچت تھاراولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (RDA) کے دفاتر میں برسوں سے خاموشی کے ساتھ چلنے والا کرپشن کا جال آخرکار بے نقاب ہوا۔ احتساب عدالت میں پیش ہونے والے ایک اسٹینوگرافر جہانگیر احمد نے دو ارب پچاس کروڑ روپے کی مبینہ خوردبرد میں اپنے کردار کا اعتراف کر لیاجہانگیر احمد نے عدالت کے روبرو بیان دیا کہ اس ”میگا کرپشن“ میں اس کا حصہ ایک کروڑ پینتیس لاکھ روپے تھا۔ اس نے یہ رقم آر ڈی اے کے سرکاری اکاؤنٹ سے نکال کر اپنی اہلیہ جہانگیر کے اکاؤنٹ میں منتقل کی یہ معاملہ اُس وقت مزید توجہ کا مرکز بن گیا جب یہ انکشاف ہوا کہ ملزم جہانگیر احمد، سابق ضلع ناظم راولپنڈی اور مسلم لیگ ن کے گوجرخان کے سینئر رہنماء راجہ جاوید اخلاص کا داماد ہے۔ سیاسی پس منظر نے کیس کو نہ صرف حساس بلکہ متنازع بھی بنا دیا۔ ناقدین کے مطابق پلی بارگین کی قبولیت نے یہ تاثر گہرا کیا کہ طاقتور طبقے کے لیے انصاف ہمیشہ نرم ہوتا ہے جہانگیر احمد نے پلی بارگین کی درخواست دی، پہلی قسط 45 لاکھ روپے عدالت میں جمع کرائی، اور رہائی پا گیا۔ چیئرمین نیب نے درخواست منظور کر لی جبکہ ایک مستند میڈیا ہاوس ایکسپریس کے مطابق اس میگا کیس میں تقریبا ستائیس افراد اور بھی سامنے آنے کو ہیں جنہوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اب بھی سوال باقی ہے نیب کے مطابق پلی بارگین کا مقصد قومی خزانے کو جلد از جلد نقصان کی تلافی پہنچانا اور طویل عدالتی کارروائی سے بچنا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ قانون اکثر ایسے افراد کے لیے”نجات کا دروازہ“بن جاتا ہے جن کے تعلقات یا سیاسی روابط مضبوط ہوں پلی بارگین کے تحت ملزم کو سزا نہیں بلکہ مالی تلافی کے عوض رہائی مل جاتی ہے، اگرچہ نیب قانون کے مطابق وہ دس سال کے لیے کسی بھی سرکاری عہدے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ سزا کافی ہے؟ عوام کے ٹیکس کے پیسے سے اربوں روپے لوٹنے والے کے لیے چند لاکھ کی واپسی انصاف کہلا سکتی ہے ذرائع کے مطابق اب نیب نے آر ڈی اے کے دیگر متعلقہ افسران کی گرفتاری کا فیصلہ کر لیا ہے، مگر اس پورے معاملے نے ایک بڑا سوال اٹھا دیا ہے جب احتساب میں بارگین“ ممکن ہو، اور مجرم سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتا ہو، تو کیا یہ انصاف کا نظام واقعی غیر جانبدار ہے؟پاکستان جیسے ملک میں پلی بارگین کا نظام ایک متنازع مگر عملی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ ایک طرف یہ نظام عدالتوں پر بوجھ کم کرتا ہے، بدعنوانی سے حاصل شدہ رقم کی واپسی میں مدد دیتا ہے اور مقدمات کے جلد حل کو ممکن بناتا ہے۔ مگر دوسری طرف، اس پر تنقید بھی کی جاتی ہے کہ یہ بدعنوان افراد کو آسان راستہ فراہم کرتا ہے اور سزا کے خوف کو کمزور کر دیتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق پلی بارگین کا غلط استعمال انصاف کے تقاضوں کو متاثر کرتا ہے اور کرپشن کے خاتمے کے بجائے اسے برداشت کرنے کی فضا پیدا کرتا ہے۔ اس لیے پاکستان میں اس نظام کو مؤثر بنانے کے لیے سخت نگرانی، شفاف طریقہ کار اور عدالتی جانچ ناگزیر ہے تاکہ یہ انصاف کے اصولوں کے مطابق استعمال ہو‘ نہ کہ ان کے برعکس۔