پری زاد پاکستانی معاشرہ کی بہترین عکاسی

تحریر:نوید ملک

پری زاد‘ پاکستان میں ٹی وی ڈراموں کو دیکھنے و پسند کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے لوگوں کو ٹی وی ڈراموں کی طرف راغب کرنے میں ماضی کے ناقابل فراموش ڈراموں کا بڑا کردار ہے ان ڈراموں میں رائٹرز سے لیکر پروڈیوسر اور کردار داد کرنے والے فنکاروں تک سبھی نے معاشرتی آداب و روایات رشتوں کے تقدس کا بڑا خیال رکھا ڈراموں کی کہانیوں میں اصلاح کے پہلو کو مدنظر رکھا جاتا تھا جس سے ڈرامہ دیکھنے والے بالخصوص نوجوان نسل کو بننے کا جذبہ پیدا ہوتا ماضی کے ان درخشان ڈراموں اندھیرا اجالا‘ انگار وادی‘ دھواں‘ وارث‘ تنہائیاں کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی شمار ہو گا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں جہاں ٹی وی چینلز کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں ڈراموں کی تعداد میں اضافہ و معیار میں کمی ہوتی گئی پاکستانی معاشرے اور روایات کو کچلنے و نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کے لئے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اب ایسے ڈرامے عوام کو دیکھائے گئے جس کی کہانی ہماری روایات و معاشرتی آداب کو روندا گیا انسانی رشتوں کے تقدس کو کمزور کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈرامے جیسے فیملی ممبران باہم بیٹھ کر دیکھ پاتے تھے وہ سلسلہ بھی باعث شرم کہانیوں و کرداروں کے سبب بھی ختم کرنا پڑا دشمن کا وار کامیاب رہا ہماری نوجوان نسل کو بے ربط عشق سے لبریز اخلاق سے گہری ڈرامہ کہانیوں کے ذریعے اخلاق و معاشرتی آداب سے دور کر دیا ان تمام حالات میں نامور لکھاری ہاشم ندیم کی لکھی کہانی پری زاد کو ڈرامہ کا روپ دینے میں ڈائریکٹر شہزاد پروڈیوسر مومنہ درید نے اہم کردار ادا کیا مومنہ درید اس سے قبل شہر ذات‘ ہمسفر‘ عہدوفا و زندگی گلزار ہے جیسے ڈرامے پروڈیوس کر کے اپنا نام اور کام منوا چکی ہیں پری زاد ڈرامے کی پہلی ہی قسط نے پاکستانیوں کو اپنی طرف ایسا متوجہ کیا کہ ہر طرف پری زاد ڈرامے اور اسکے کرداروں کا چرچا دیکھا ساس بہو کے جھگڑوں سے الگ بے ربط عشق کی کہانیوں سے ہٹ کر پری زاد کی کہانی نے پاکستانیوں کو اپنے سحر میں جھگڑ لیا بلاشبہ مومنہ درید نے ہاشم ندیم کے تخلیق ردار کو زندہ کر دیا ہے اپنی محنت سے،پری زاد ڈرامے نے نئی سوچ کو پیدا کیا ہے جو پیغام اس ڈرامے (ناول) کے رائٹر ہاشم ندیم پری زاد کردار کے ذریعے دینا چاہیے اسے مومنہ درید نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پہنچا دیا ہے پہلی بار کسی ٹی وی ڈرامے میں شاعری ادب اور دانش و حکمت سے بھری باتوں کو شامل کیا گیا جیسے سننے دیکھنے کے بعد ہمارے ذہنوں میں ارتعاش ضرور پیدا ہوا جو لوگ دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کر کے انکی مدد کرئے بلا کسی مفاد کے تو پری زاد کہلوانے کا حق دار ہے۔موجود ملکی صورت حال و مہنگائی کے سبب ملک کے اندر رہنے والے سفید پوش و تنخواہیں دار طبقہ مشکلات و بحران کا شکار ہے ہم مسلمانوں کا مقدس و بابرکت مہینہ ماہ صیام کی آمد آمد ہے ماہ صیام کے لوازمات و عید کے سبب اضافی اخراجات کے سبب محدود مالی وسائل رکھنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس مہینے میں اگر صاحب ثروت احباب پری زاد کا روپ دھارکر رعایتی نرخوں پر اپنے اپنے علاقوں محلوں گلیوں و قصبوں میں گھی تیل کھجوریں بیسن آلو پیاز آٹا ٹماٹر و فروٹ کے اسٹال لگوائیں تو ان کے اس عمل سے سفید پوش طبقہ ماہ صیام کو نہ صرف روایتی انداز سے نہ صرف منا سکیں گے بلکہ انھیں درپیش ممکنہ مالی مشکلات میں بھی کمی ممکن ہو سکے گی ہم میں سے ہر فرد پری زاد کا روپ دھار سکتا ہے آپ بڑے پیمانے پر اگر اسٹال نہیں لگا سکتے تو اس عمل کا آغاز بیس کلو کھجور دس پیکٹ گھی تیل کے بھی رکھ کر بھی شروع کر سکتے ہیں نماز جمعہ کے خطابات میں علمائے کرام ہمیں صحابہ کرام سے محبت کرنے کا پیغام دیتے ہیں ہم اس دور میں ان سے محبت کا اظہار ان کے طرز عمل پر کسی کام کو سر انجام دے کر کر سکتے ہیں حضرت عثمان غنی ؓنے ہر مشکل وقت میں مسلمانوں کی مدد کی یہودی سے میٹھے پانی کا کنواں خرید کر وقف عام کر دیا جب مکہ میں گندم کی کمی ہوتی تو دوسرے ممالک سے آنے والوں قافلوں سے مہنگے داموں گندم خرید کر قیمت خرید سے بھی انتہائی کم نرخوں پر گندم مسلمانوں کو فراہم کرتے اور بعض اوقات اناج مفت تقسیم کروا دیتے ہم کیا پیکر سخاوت حضرت عثمان غنیؓ سے محبت ان کے اس طرز کے عمل کو کر کے ثبوت فراہم کر سکتے ہیں آئیں ہم اپنی عملی زندگیوں میں پری زاد بن کر کسی کی امیدوں کسی کی خواہش کو پورا کرنے کا عزم کریں یقین جانیں آپ اپنے اس طرز عمل سے خود کو پری زاد تصور کریں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں