31

پروفیسر ڈاکٹر ظہیر الدین بابر: ادویات کے مساوی نظام کے عالمی سفیر

ایک ایسی دنیا میں جہاں زندگی بچانے والی ادویات تک مساوی رسائی لاکھوں لوگوں کے لیے محض ایک خواب بن کر رہ گئی تھی وہیں پاکستانی نژاد پروفیسر ڈاکٹر ظہیر الدین بابر ایک امید بن کر سامنے آئے ہیں۔ مسلم دنیا سمیت عالمی سطح پر عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے پروفیسر ظہیر الدین بابر نہ صرف ادویات کی پالیسیز اور قیمتوں کے تعین کے حوالے سے اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں

بلکہ ایسی پالیسیز کے پرجوش وکیل بھی ہیں جو قابل رسائی اور سستی ادویات کو ترجیح دیتی ہیں۔ آپ کی بابصیرت پالیسیز کا اثر وزارت صحت کے بورڈ رومز سے لے کر دنیا کی غریب ترین آبادی کو خدمات فراہم کرنے والے کلینکس تک محسوس کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے شہر لاہور سے تعلق رکھنے والے پروفیسر بابر کا ادویات کے شعبے میں سفر بہت شاندار رہا ہے۔ آپ کالج آف فارمیسی، قطر یونیورسٹی میں بطورپروفیسر آف کلینیکل فارمیسی اینڈ پریکٹس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف ہڈرزفیلڈ، برطانیہ کے شعبہ فارمیسی میں بھی اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

ان کے سابقہ ​​تعلیمی عہدوں میں میڈیسن اور ہیلتھ کیئر کے پروفیسر،فارماسیوٹیکل پالیسی اینڈ پریکٹس ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر، یونیورسٹی آف ہڈرز فیلڈ، برطانیہ اور ہیڈ آف فارمیسی پریکٹس، یونیورسٹی آف آکلینڈ، نیوزی لینڈشامل ہیں۔
لاتعداد ممالک نے آپ کی تحقیق سے متاثر ہو کر ادویات سے متعلق پالیسیز اپنائی ہیں

جن میں ملائیشیاء،نیوزی لینڈ،برطانیہ،یورپیئین ممالک اور ترقی پذیر ممالک سمیت عالمی ادارہ صحت جیسے ادارے بھی شامل ہیں.
آپ نے تین سو چالیس سے زیادہ مقالے تصنیف کیے ہیں اور عالمی سطح پر “فارمیسی پریکٹس ریسرچ” کے زمرے میں اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔
آپ عالمی ادارہ صحت، رائل فارماسیوٹیکل سوسائٹی، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی)، ہیلتھ ایکشن انٹرنیشنل، ایم ایس ایچ،فارماسیوٹیکل ایجنسی آف نیوزی لینڈ، انٹرنیشنل یونین برائے تپ دق، ورلڈ بینک، یورپی یونین، انٹرنیشنل فارماسیوٹیکل فیڈریشن میں مشیر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔
پروفیسر ظہیر الدین بابر کے قابل ذکر کاموں میں فارمیسی سروسز کی اقتصادی تشخیص،اکیسویں صدی میں دواؤں کی قیمتیں، صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو ترقی دینے والے ممالک میں دواسازی کی پالیسییز،عالمی دواسازی کی پالیسی،زیادہ قیمت والی ادویات تک رسائی، فارمیسی پریکٹس ریسرچ کیس اسٹڈیز اور انسائیکلوپیڈیا آف فارمیسی پریکٹس اینڈ کلینیکل فارمیسی شامل ہیں سمیت درجنوں قابل ذکر کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔


آپ کا زیادہ تر کام ادویات تک رسائی کو بڑھانے، ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور فارماسیوٹیکل پالیسییز کی تشکیل سے متعلق ہیں جو مقامی اور عالمی صحت کی دیکھ بھال کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ان کی حالیہ اشاعتیں جن میں “گلوبل فارماسیوٹیکل پالیسی” اور “فارمیسی پریکٹس ریسرچ میتھڈز” شامل ہیں ان چیلنجز سے متعلق اہم بصیرت فراہم کرتی ہیں جن کا دنیا بھر میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو سامنا ہے( خاص طور پر وبائی امراض کے بعد کی دنیا کے تناظر میں)۔ ادویات کے مربوط نظام، فارماسیوٹیکل پالیسی سازی، سستی جنرک ادویات تک رسائی، اور یہاں تک کہ عالمی سپلائی چینز کی پائیداری سے متعلق ان کا کام صحت کی دیکھ بھال کی پالیسیز بنانے کے لیے ایک جامع روڈ میپ پیش کرتا ہے۔


ادویات کی قیمتوں اور پالیسیز کی تبدیلی کے لیے پروفیسر بابر کی خدمات کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔یونیورسٹی آف آکلینڈ کی طرف سے ریسرچ ایکسیلنس ایوارڈ اور ہیلن کلارک جرنل آف فارماسیوٹیکل پالیسی اینڈ پریکٹس کا ایوارڈ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


جرنل آف فارماسیوٹیکل پالیسی اینڈ پریکٹس جیسے بین الاقوامی اور صف اول کے مجلے کے بانی مدیر اعلیٰ کے طور پر انہوں نے تنقیدی تحقیق کے لیے ایک ضروری پلیٹ فارم بنایا ہے جو دنیا بھر میں صحت کی دیکھ بھال کے فیصلوں کو متاثر کرتا ہے۔


تحقیقی اور ادارتی کام کے علاوہ ان کی عالمگیر اشاعتوں کا اثر عالمی تعاون اور پالیسی میں تبدیلی تک پھیلا ہوا ہے۔ امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر انھوں نے صحت کے نظام کو مضبوط بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے

جس میں پیچیدہ مسائل جیسے ادویات کی قیمتوں کا تعین، فارماکو اکنامکس، اور منشیات کی سپلائی چینز میں پائیدار طریقوں پر رہنمائی شامل ہیں۔ آغا خان فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں کے ساتھ مستحق کمیونٹیز کے لیے کیا گیا کام آپ کے مضبوط عزم کی عکاسی کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ادویات کی رسائی زیادہ آمدنی والے ممالک تک محدود نہیں ہے بلکہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں بھی ترجیح دی جاتی ہے، جہاں اس کی شدید ضرورت ہے۔

پروفیسر ظہیر الدین بابر کی دور اندیشی اور بصیرت نہ صرف ادویات کی پالیسی میں بلکہ تعلیم کے لیے ان کی غیر متزلزل وابستگی سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اپنے لیکچرز اور رہنمائی کے ذریعے آپ نے فارماسسٹ اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کی نئی نسل کو بہت متاثر کیا ہے۔آپ نے ادویات بارے ثبوت پر مبنی گائیڈ لائنز کی اہمیت کو اجاگر کیا اور انہیں مختلف کمیونٹیز میں تبدیلی لانے کے لیے دن رات کام کیا ہے۔

بطور فارمیسی پریکٹس پروفیسر کےآپ کی رہنمائی میں تربیت یافتہ طلباء اور نوجوان پیشہ ور افراد اب قابلیت اور ہمدردی کے ساتھ حقیقی دنیا کے صحت کی دیکھ بھال کے چیلنجز سے نمٹنے میں اپنا موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔
صحت کی دیکھ بھال کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور علاج تک غیر مساوی رسائی کے دور میں، پروفیسر ڈاکٹر ظہیر الدین بابر عالمی صحت میں انصاف پسندی اور رسائی کی وکالت کرنے والے اہم ترین محقق اور سائنسدان کے طور پر سامنے آئے ہیں جن کا کام حکومتوں، صحت کی تنظیموں اور مریضوں کی دیکھ بھال کے حوالے س یکساں طور پر مقبول ہے

جو ایک ایسے مستقبل کی امید پیش کرتا ہے جہاں سستی دوا ایک استحقاق نہیں بلکہ اس دنیا کے ہر انسان کا عالمی حق ہے۔ڈاکٹر صاحب کا کام محض علمی تعریف کرنے کے لیئے نہیں ہے بلکہ بنی نوع انسانیت کے لیے ہے جو ان کی گہری لگن اور اس یقین کی حمایت کرتی ہے کہ صحت کی دیکھ بھال کو بوجھ سمجھنے کی بجائے ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو اسے ترجیحی بنیادوں پر ٹھیک کرنا چاہیے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں