پرنہ /ابن نظر

پوٹھوہار کے لوگ ایک اضافی کپڑا جس کی عمومی لمبائی ایک گز یا دو گز اور چوڑائی بھی اتنی ہی ہوتی ہے اپنے کندھے پر یا بغل میں دبائے رکھتے ہیں اس کو’’ پرنہ‘‘ کہتے ہیں۔ جب لوگ زمین کو نشست گاہ زیادہ بناتے تھے ۔سونے ،بیٹھنے کے لیے کھلی جگہوں کا

انتخاب کیا جاتا تھااکثر اوقات مکھیوں سے بچنے اور ڈھانپنے کے لیے ’’پرنہ ‘‘کو استعمال کرتے تھے۔ مہمان بھی چارپائی پر سونے یا بیٹھنے کے لیے بستر،چادر یا کمبل کا تکلف میزبان کو نہیں کرنے دیتے تھے ۔ہاتھوں کو خشک کرنے کے لیے تولیہ کی ڈیمانڈ بھی نہیں کی جا تی تھی

اس کے لیے بھی پرنہ ہی کا م آتا تھا بزرگوں کے احترام اور شرافت کی وجہ سے سر کو ہر وقت ڈھانپ کر رکھا جاتا تھا۔ سفر و حضر میں اس بات کا خصوصی انتظام ہوتاتھا ۔کھانا کھاتے وقت محفل میں بیٹھتے وقت تو سر کو ڈھانپ کر رکھنا لازم ہوتا تھا جوں جوں وقت گزرتا گیا جس طرح معاشرتی زندگی میں اور بہت سی تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں

اس طرح اضافی کپڑا ’’پرنہ ‘‘رکھنے کی روایت نے بھی دم تور دیا ۔لوڈ شیڈنگ گزشتہ دو سالوں سے جاری حبس اور شدید گرمی نے ہمیں’’پرنہ‘‘رکھنے پر مجبور کر دیاہے ۔ٹوپی ،پی کیب اور ہیٹ کے باوجوداس کی افادیت اور استعمال میں کوئی کمی نہیں آئی ہے حالیہ گرمی کی لہر سے بچاؤ کے لیے ’’پرنہ‘‘ ہمارے لباس کا جزو بن گیا ہے ’

’پرنہ ‘‘ نہ صرف دھوپ سے بچاؤ میں مدد دیتا ہے ۔آندھی، جھکڑ چلنے کی صورت میں گردو غبار سے بھی بچاتا ہے ۔سخت لو اور حبس میں پسینہ پونچھنے کے کام آتا ہے زخمی ہونے کی صورت میں اسے پٹی بھی دی جاسکتی ہے کسی کو دور سے اشارے سے بلانا ہو یا مدد کے لیے بلانا پڑے تو ہاتھ میں لے کر جھنڈے کی صورت میں لہرایا جاتا ہے۔

سر کو ڈھانپ کر رکھنے والے شخص کے احترام و عزت میں بہ نسبت ننگے سر کے زیادہ ہوتی ہے جس طرح برقعہ ،چادر اور نگاہوں کی پستی عورت کے احترام ،عزت اور تکریم میں اضافہ کرتی ہے ۔ بعینہ چادر ، پگڑی اور پرنہ مرد کے وقار ،وجاہت اور بزرگی میں اضافہ کا باعث بنتا ہے ۔

آج کے مردوں کے کانوں میں ہیڈ فون ،آنکھوں پہ کا لے چشمے ہاتھ میں ٹچ موبائل ،کلائیوں میں مختلف رنگوں کے بریسلر ،پاؤں میں شوخ رنگوں کے شوز،آدھی شرٹ نہ جانے مرد کے کون سے وقار میں اضافہ کرتے ہیں اور اس کی کیسی شخصیت کا پتہ دیتے ہیں یورپ سے در آمدہیر سٹائل ہماری تہذیب کی پہچان نہیں ہے اسی لیے تو آج کا نوجوان محفل میں بیٹھ کر تنہائی میں موبائل اور کمپیوٹر کے استعمال کو ترجیح دیتا ہے۔

روایات سے کٹ کر ہمارے پاس کو ئی علاقائی پہچان نہیں ہوتی ،لباس عادات بھی علاقہ خاندان اور روایات کا پتہ دیتی ہیں ۔ہمیں ضرورت کے ساتھ ساتھ روایت کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔بڑی بڑی کلاہ والی پگڑیاں اس علاقہ کی پہچان ہوتی تھیں۔مہمان نوازی ،رکھ رکھاؤ میں اپنی مثال آپ تھے

،بیل دوڑ ،کبڈی اور کتوں کی لڑائیاں اس علاقہ کی تفریح اور کھیل تھے ۔میلے ،عرس اجتماعی سرگرمیاں تھیں۔سیاسی اگٹھ ،جوڑ توڑ زمینوں پر قبضے ،سازشوں کے جال بننا ،غریبوں پر ظلم ،پولیس کے ٹاؤٹ بننا عدالتوں میں ایک دوسرے کو کئی کئی سال گھسیٹنا ،ہماری پہچان نہیں ہیں مصالحت کے ذریعے مسائل کا حل ،جرگے اور پنجائیت کے ذریعے امن اور ایک دوسرے سے میل جو ل ،شادی بیاہ ،تعزیت اور جنازہ پر اگٹھے ہونا ہماری روایت کا حصہ ہیں.

ہمیں اس علاقہ کی شناخت کو بحال کرنے کے لیے اس چیزوں کی طرف لوٹ کر جانا ہوگا اسی میں ہماری بقا ہے اور یہی ہماری شناخت ہے یہ علاقہ فاتحین کے لشکروں سے آج تک جو بچا آرہا ہے تو اس کی وجہ بھی ہماری روایات ہی ہیں.{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں