پرسکون زندگی

گزشتہ روز ایک نیوز چینل نے فیض آباد کے نواحی گاؤں کی مثالی زندگی پر ڈاکیومنٹری دکھائی کہ کس طرح ایک امام مسجد جو نہ صرف مستند عالم دین بلکہ دنیاوی علوم میں بھی ایم اے کر رکھا ہے ان کی تبلیغ اور شب و روز کی محنت سے گاؤں کے سب لوگ نمازی ہیں کسی بھی دوکان سے سگریٹ نہیں ملتا اور نہ کوئی سگریٹ پیتا ہے آپس کے جھگڑے اور اختلافات امام مسجدکی سرپرستی میں حل کر لئے جاتے ہیں تمام شادیاں ا نتہا ئی سادگی سے کی جاتی ہیں روایتی رسومات کے بغیر ساز‘گانا‘ڈھول ہر ایک چیز سے اجتناب برتتے ہوئے صرف کھانے پر اکتفا کیا جاتا ہے اس گاؤں کو مثال بنایا جائے تو ہر گاؤں کے لوگ سکون واطمینان سے رہ سکتے ہیں پو ٹھوہار کے دیہات جہاں ایک برادری کے لوگ رہتے ہوں جن کی زندگی ایک ساتھ گزری ہو بچپن سے لے کر جوانی تک کے چشم دید گواہ ہوں وہاں فساد‘جھگڑا‘ایک دوسرے پر الزامات‘ مقد ما ت کا اندراج‘راستہ بند کرنے کی دھمکیاں‘بات بات پر طعنوں کی بوچھاڑ غرضیکہ کسی کو بے سکون کر کے خود کوسکون دینے کی عادت نے گا ؤ ں کی زندگی مشکل بنا دی ہے جن خاندانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے دکھ درد کو کم کرنے کیلئے صلاح ومشورے کرنا تھے وہ ایک دوسرے کو تکلیف دینے کیلئے کئی کئی گھنٹے سر جوڑ کربیٹھنا اپنا کمال خیال کرنے لگے ہیں جنہوں نے ایک دوسرے کی خبر گیری کرنا تھی کہ کون بیمار ہے کس کو کتنی تکلیف ہے کوئی بھوکا تو نہیں سو گیا ان سب چیزوں کو پس پشت ڈال کرہم ایک دوسرے سے تعلق ہی توڑ چکے ہیں کوئی جیئے یا مرئے اسکا ذاتی مسئلہ ہے اگر کوئی نیک نیتی سے اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہے تو اسے کام‘گھر اور ذاتی معاملے میں مداخلت قرار دیتے ہوئے خبردار کر دیا جاتا ہے ایک دوسرے کے اندرونی‘خفیہ معاملات کو خبر رکھنا اور اسے عام کر دینایہ عادت ہمارے گاؤں کے سکون کو ختم کر رہی ہے جتنی نفرت اس سے پیدا ہو رہی ہے شاید ہی کسی اور بات سے پیدا ہو رہی ہو ہماری آپس کی گفتگو معلومات کے تبادلے کیلئے نہیں ہوتی نہ ہی کوئی مشکل حل کرنے کیلئے گفت وشنید کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی غلطیوں کا چرچا اور غیبت ہماری گفتگوکا محور و مرکز ہوتا ہے ہمارے گاؤں امن کا گہوارے تھے ان کی مثالیں دی جاتی تھیں رفتہ رفتہ ذاتی کمزوریوں اور شخصی مفادات کی جنگ نے ان گاؤں کو بے سکونی‘ تکلیف اور مستقل کرب کی جگہوں میں تبدیل کر دیا ہے مل بیٹھنے کی مرکزی جگہیں وقت کی کمی اور اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے اجڑ چکی ہیں آپس میں قدریں مشترک نہ ہونے کی وجہ سے بھی نا اتفاقی جنم لے رہی ہے ایک دوسرے کو برتری جتانے اور خوامخواہ نیچا دکھانے کی پریکٹس نے ہماری محفلوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے آپس کی دوریاں کیسے ختم ہوں مل بیٹھنااور خیر خواہی کیلئے اکٹھا ہونا کیسے ممکن ہو ہم اجتماعی اصول طے کر کے گاؤں کو مثالی اور پررونق بنا سکتے ہیں ان اصولوں پر عمل کر کے مل کر جان ماریں غلطی کوتاہیوں کا جائزہ اجتماعی طورلیا جائے آئندہ کسی بھی غلط اقدام کی وجوہات کو یکسر ختم کیا جائے ہمارے دین نے واضح اصول بتا دیئے ہیں ان کو بلا جھجک اختیار کریں نہ کہ اپنے ذاتی مفاد کی تشریح کیلئے تمام عمر برباد کر دیں تاکہ عبادت میں یکسوئی نصیب ہو انسان کی تخلیق کا مقصد پوراہو آپس میں بے لوث میل جول‘ محبت‘ہمدردی پیدا ہو کدورتیں‘نفرتیں دفن ہوں اور ان کی جگہ‘محبتیں اور احترام عام ہو عبادت میں دل لگے اور حق زندگی ادا ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں