پردیسوں کی ماں کی عید

30 رمضان المبارک کی صبح گاڑی لیکر گھر سے نکلا تو ایک ضیف العمر ماں جی سڑک کنارے گردن جھکائے بازار کی جانب رواں دواں تھی ان کو دیکھ کر تیس برس قبل رلا دینے والے ماضی کی یادوں میں گم ہوگیا جب ہمارے پاس سائیکل کے علاوہ کوئی سفری سہولت میسر نہ ہوتی تھی میں اور بیمار والدہ محترمہ کھیتوں کی پگڈنڈیوں پہ کئی میل پیدل چل کر سرکاری ہسپتال میں علاج ومعالجہ کے لیے جایا کرتے تھے جب کھبی امی سے نہ چلا جاتا تو روڈ کنارے دھوپ و چھاؤں میں گھنٹوں کسی پبلک ٹرانسپورٹ یا گاڑی کا انتظار کرنا پڑتا پھر جاکر کھبی مفت اور کھبی کرایہ ادا کرکے بازار کے سرکاری ہسپتال پہنچا کرتے تھے ان دنوں لوگوں کے پاس گاڑیاں کم لیکن انسانی ہمدردیاں زیادہ تھیں کسی کو لفٹ دینا یا سواری کی سہولت فراہم کرنا ثواب تصور کیا جاتا تھا والدہ محترمہ کی انہی یادوں کو اپنے دل کی آنکھ میں عکس بند کرتے ہوئے گاڑی روکی نیچے اتر کر دروازہ کھول کر اماں جی کو فرنٹ سیٹ پہ والدہ کا احترام دیتے ہوئے بٹھایا ان سے دعا وسلام کے جب پوچھا کہ صبح سویرے کدھر جانا ہورہا ہے تو ماں جی گویا ہوئیں کہ بیٹا کیا بتاؤں صبح عید ہے گھر میں پکانے کے لیے سامان بھی نہیں ہے اور ادویات بھی ختم ہوئی بازار جارہی ہوں تاکہ کچھ خریداری اور ادویات وغیرہ لے لوں پھر عید کی چھٹیوں کی وجہ سے بازار تین دن بند رہے گا میں نے پوچھا کہ آپ کی اولاد بچے نہیں اتنی لاغری کی عمر میں گھر سے نکلی ہوئی ہیں ماں جی نے میری طرف دیکھتے ہوئے بولنا روک دیا ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک جھڑی نکلی دوپٹے سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا کیا بتاؤں بیٹا پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں شادی کے بعد سب امریکہ میں مقیم ہوگئے ہیں سارے بال بچے دار ہیں وفادار و تابعدار ہیں بہت ہی محبت کرتے صبح و شام دن کو دودو دفعہ فون کرکے میری صحت وسلامتی کے بارے میں دریافت کرتے ہیں میرا تو دل کرتا ہے ان میں سے ایک ناں ایک پاس ہو پوتے پوتیوں کو پیار کروں اور ان کے لاڈ اٹھاوں لیکن وہ مجبور ہیں ان کے بچے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں وہاں بھی بہت مہنگائی ہوچکی ان کے اپنے اخراجات پورے نہیں ہو رہے وہ ادھر پاکستان کیسے ائیں جہازوں کے کرائے بھی زیادہ بڑھے ہوئے ہیں یہاں میرے پڑوسی اچھے ہیں صبح و شام کھانا پکا دیتے ہیں رات کو اکیلے ہی بچوں کی یاد لیے سوجاتی ہوں بس وقت گزر رہا ہے الحمداللہ لیکن پتر ایک بات ہے جب کھبی ٹانگوں اور سر میں درد ہوتا ہے تو پھر اپنی قسمت پہ بہت رونا آتا ہے کہ اولاد زمین وجائیداد اور پیسہ ہونے کے باوجود میں گھر میں بے یارومددگار ہوتی ہوں اگر خدانخواستہ میری روح پرواز کر جاتی ہے میری میت کو کون دیکھے گا کفن ودفن کا بندوبست کیسے ہوگا زمانہ میرے بچوں کو برا و بلا کہہ گا وہ اس وقت سارے کے سارے پاکستان آئیں بھی گے برادری و رشتہ دار بھی جمع ہوجائیں گے قل و چہلم ہوگا لوگوں کی خاطر و تواضع بھی ہوگی لیکن پتر میں تو کچھ بھی نہ دیکھ سکوں گی میں آج بھی عید اپنوں سے دور ان کی یادوں میں گزاروں گی ماں جی کی باتوں سے میں بھی جذباتی ہوگیا سٹاپ پہ ان کو دونوں ہاتھوں سے اتارکر میں دفتر میں آگیا لیکن یقین جانیے میرا دل و دماغ ابھی بھی ماں جی کی ضعیف العمری اور ان کی باتوں میں کھویا ہوا ہے کہ انسان بھی کتنا خود غرض ہے کہ وہ اولاد عیش و عشرت کی زندگی اور بہتر مستقبل کے لیے دنیا کی معتبر ترین ہستی جن کے قدموں تلے اللہ تعالی نے جنت کی بشارت دی ہوئی ہے کو بے یارومددگار چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور قصوروار اپنے آپ نہیں دوسرے بہن و بھائیوں کوقرار دیتے ہیں کہ میری تو مجبوری ہے دوسرے کو پاکستان جاکر والدین کی خدمت کرنی چاہیے محترم قارئین میرے وطن پاکستان میں اللہ کے فضل وکرم سے سب کچھ موجود ہے بات صرف محنت کی اگر لاکھوں روپے خرچ کر کے دیار غیر میں پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے کام کیا جاسکتا ہے تو یہاں اپنوں کے ساتھ رہتے ہوئے دس گھنٹے کام کرنے میں کیا مضائقہ ہے خدارا اپنے بوڑھے والدین کی قدر کریں ان کی خدمت میں ہی دونوں جہاں کی کامیابیوں کے راز پوشیدہ ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں