پرائیویٹ تعلیمی ادارے بہترین کاروبار

آصف شاہ/وطن عزیز کی مٹی بڑی زرخیزہے لیکن اس کی زرخیزی کے ہر شعبہ کو ایک مافیاءقبضے میں لے چکا ہے اس وقت میں اگر آپ اپنے ارد گردنظر دوڑائیں تو آپ کوہسپتالوں اور سکول کالجز کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا ان دنوں کالجز میں داخلوں کا ایک سلسلہ چل رہا ہے بے تحاشہ دولت رکھنے والے والدین کے لیے بچوں کا داخلہ تو کوئی مسلہ نہیں ہے لیکن متوسط طبقہ شعبہ تعلیم کے میدان میں بھی پریشان نظر آتا ہے ان کو سمجھائی نہیں دے رہا کہ انتہائی مشکل مالی حالات میں وہ کون سے اور کس ادارے میں اپنے بچے اور بالخصوص بچیوں کا داخلہ کروائیں دوسری طرف شعبہ تعلیم میں نوسربازوں کی کمی نہیں ہے اور وہ اس میدان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں غریب والدین جب بھی کسی ادارے میں جاتے ہیں ان کو خوشنمائی کی وہ فلم دکھائی جاتی ہے جس کا اس ادارے یا کالج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جس کے سحر میں والدین جکڑ جاتے ہیں اور انہیں اپنا بیٹا خواب ہی خواب میں کسی بڑے عہدے پر دکھائی دیتا ہے لیکن داخلے کے لیے جانے والے والدین نے وہ سوال کبھی نہیں پوچھا جو انہیں پوچھنا چاہیے کہ آپ کا ادارہ کس بورڈ اور یونیورسٹی سے الحاق ہے اور نہ ہی کبھی سکول پرنسپلز نے بتانے اور حقائق دکھانے کی کوشش کی کیونکہ حقائق کو سامنے رکھ کر ان کو اپنی روٹی روزی ڈوبتی نظر آتی ہے،روات سے کلر سیداں میں اس وقت بے شمار کالجز عرصہ دراز سے کام کر ہے ہیں لیکن کالجز کی ایک لمبی لسٹ کے باوجود صرف چند ادارے کا ہی بورڈز اور یونیورسٹی سے الحاق ہے جبکہ باقی عوام اور والدین کی جیبوں پر بوجھ بنے ہوئے ہیں ،ایسے کالجز بچوں کو اپنی بلڈنگز میں سال بھر پڑھانے کے نام پر بٹھا کر رکھتے اور بھاری بھاری فیسز کی وصولی کرتے ہیں لیکن داخلوں کے ٹائم پر ان کا داخلہ اپنے کالج کے بجائے گوجر خان یا راولپندی کے کسی کالج سے بھجوادیاجاتا ہے پھر ان بچوں کا سینٹر کئی اور بنادیا جاتا ہے جس پر بچے تو کسی نہ کسی طریقہ سے اس کو ہینڈل کر لیتے ہیں لیکن جن والدین کی بچیاں امتحان دے رہی ہوتی ہیں ان کا امتحان شروع ہوجاتا ہے اور سرکاری ملازمین کے لیے ایک الگ عذاب کہ ان کو آفس سے روز چھٹی نہیں ملتی جس سے کئی بچیوں کا تعلیمی کیئریر داو پر لگ جاتا ہے لیکن دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے ان نام نہاد اور خود ساختہ پرنسپلز کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ وہ والدین سے فیسز ایڈوانس میں بٹور چکے ہوتے ہیں اس سارے عمل میں اگر محکمہ تعلیم کے ان کرپٹ عناصر کا زکر نہ کیا جائے تویقینا زیادتی ہوگئی جو اس کار خیر سے اپنا پورا پورا حصہ وصول کرتے ہیں اور انہی کالجز کے گائے بگائے دورے بھی کرتے ہیںجہاں وہ لنچ کے ساتھ ساتھ آنے جانے کا خرچہ بھی اسی کالج سے وصول کرتے ہیں جس کو پرنسپلز خندہ پیشانی سے ادا کرتے ہیں اور بعد ازاں سکول کے طلبہ کے سامنے اس کو سرکاری وذٹ کاکہ کر دھاک بٹھاتے نظر آتے ہیں یہ شاطر مافیاءبچوں کی نفسیات سے کھیلتا ہے ،گزشتہ دنوں ایک پرنسپل سے ملاقات کے دوران انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک بہت بڑے ادارے کے پرنسپل محترم میرے پاس تشریف لائے ان سے ملاقات ہوئی رہتی تھی کہنے لگے آپ کے ادارے نے شاندار ترقی کی ہے میں چاہتا ہوں کہ اس میں اپنا حصہ ڈالوں میں نے حکم کریں کہنے لگے کہ میرے کالج کی بیس بچیاں انتہائی قابل ہیں چاہتا ہوں کہ ان کا داخلہ آپ بھجوائیں بس ایک مہربانی کیجیے گا کہ فی داخلہ مجھے پانچ سے چھ ہزار روپے دے دیں بچیاں ٹاپ کریں گی تو آپ کے ادارے کا نام بلند ہوگا تو میں نے کہا کہ معذرت میں ایسا کام نہیں کر سکتا آپ کو پتہ ہے جو کچھ آپ مجھے دینا چاہتے ہیں آپ اپنے کالج سے داخلہ بھجوا دیں اور ادارے کا نام بلند کریں شرمندہ ہوئے بغیر بولے آپ کو پتہ ہے میرے ادارے کا بورڈ سے الحاق نہیں ہے اس لیے اتنے بھکیڑے میں کون پڑے اب جب تعلیم کے شعبہ میں ایسے نان سیئریس اور نان پروفیشنل لوگ ہوں گے تو اندازہ کریں کہ ہماری تعلیمی استعدادکیا ہوگی اور ہم اس ملک کی نوجوان نسل کو کیسے تیار کر رہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ وہ شعبہ تعلیم میں موجود ایسی کالی بھیڑوں کا قلع قمع کرے جو ہماری نئی نسل کو تعلیم کے نام پر تباہی کی جانب لے کر جا رہی ہے ایسے اداروں کے خلاف فی الفور ایکشن ہونا چاہیے جو کئی دہائیوں سے تعلیم کے نام پر موجود ہیں بدقسمتی سے کچھ تعلیمی ادارے جنہوں نے سکول کو بورڈ سے الحاق کروایا ہے وہ سکول کے ہی رجسٹریشن والے نمبر سے کالج بھی چلا رہے ہیں جو مکمل غیر قانونی ہے اس کا سدباب کون کرے گا روات سے کلر سیداں میں اس وقت بے شمار ادارے کام کر ہے ہیں اور کچھ نئے بھی اس میدان میں قدم رکھ رہے ہیں لیکن راتوں رات امیر ہونے کے چکر میں تعلیمی نظام کو یر غمال بنانے والے اس مافیاءکے خلاف کون قدم اٹھائے گا یقینا اس کا جواب شعبہ تعلیم کے افسران ہی دے سکتے ہیں ،مجھے یاد ہے کہ ایک تقریب کے دوران محسن پا کستان ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا تھا کہ ہم نے گلی کوچوں میں ایک ایک کمرے میں یونیورسٹی بنا لی ہے اور بچوں کو دھڑا دھڑ ڈگریاں دے رہے ہیں لیکن صد افسوس کہ ہم اپنی نسل کو کوئی ہنر نہیں دے پا رہے یقینا اس پر حکومت میں موجودشعبہ تعلیم کے ارباب اختیار کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ،لیکن شاید”نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی نہ سنے،،۔

اپنا تبصرہ بھیجیں