پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات دنیا میں موجود دو اسلامی برادر ممالک کے درمیان ایک بے مثال دوستی کی کہانی ہیں۔ یہ تعلقات محض سفارتی حد تک محدود نہیں بلکہ مذہبی، ثقافتی اور سماجی بنیادوں پر استوار ہیں، جو دونوں اقوام کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں اور ترقی و خوشحالی کے بے شمار مواقع فراہم کرتے ہیں۔
جب سعودی عرب کی بات ہوتی ہے، تو میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ اپنی زندگی کے 27 سال اس عظیم سرزمین پر گزارے۔ یہ ملک نہ صرف میرے روزگار کا ذریعہ بنا بلکہ خوشی اور حسین یادوں کا مرکز بھی رہا۔ میرے بچے، جو حرم کی صحن میں کھیلتے اور صفا و مروہ کے درمیان دوڑ لگاتے تھے، آج بھی ان لمحوں کو یاد کرتے ہیں۔
سعودی عرب میں پاکستانیوں کے لیے بے شمار مواقع ہیں۔ حال ہی میں، سعودی عرب نے فیفا ورلڈ کپ 2034 کی میزبانی جیت کر دنیا کی توجہ حاصل کی۔ اس کامیابی کے بعد کاروباری اور سرمایہ کاری کے مواقع کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔
ڈاکٹر سمیرہ عزیز، جو سعودی عرب کی ایک معروف کاروباری خاتون اور میڈیا پرسن ہیں، نے پاکستانی کاروباری افراد کو ایک شاندار موقع فراہم کیا ہے۔ انہوں نے پیشکش کی ہے کہ وہ کمپنی رجسٹریشن کے عمل میں ان کی مدد کریں گی تاکہ وہ ان امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔
یہ مواقع محض باتیں نہیں۔ میں نے خود خالد ضیاء کی کامیابیوں کو قریب سے دیکھا ہے، جو پہلے کفالت کے تحت محدود منصوبے چلاتے تھے۔ آج، اللہ کے فضل سے، وہ الناغی موٹرز، المجدوعي اور الوالان جیسے اداروں کے اہم ٹھیکیدار ہیں اور سعودی عرب میں آٹو موبائل اور تعمیراتی صنعت میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
اسی طرح، ذوالقرنین علی خان کا ذکر بھی قابل ذکر ہے، جو عمران خان کے ساتھی اور یوٹلٹی سٹورز کارپوریشن کے ایم ڈی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے 200 ڈائلیسز مشینوں کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے اور ان کی بات چیت اس حوالے سے جاری ہے۔
مزید برآں، انجینئر شفقت دھول کی خدمات بھی قابل تحسین ہیں، جنہوں نے سعودی عرب میں انفراسٹرکچر اور دیگر شعبوں میں شاندار کردار ادا کیا۔ ان کی محنت اور لگن انہیں پاکستانی کمیونٹی کے لیے ایک مثال بناتی ہیں۔
جدہ میں موجود پاکستانی کونسل جنرل خالد مجید کا بھی اس تعلق میں بڑا ہاتھ ہے۔ ان کی محنت اور عزم نے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کیا ہے، اور پاکستانی کمیونٹی کے لیے بے شمار مواقع پیدا کیے ہیں۔
اکثر لوگ سوال کرتے ہیں: “بیرون ملک پاکستانی کیا کرتے ہیں؟ کیا وہ صرف اپنے خاندانوں کو پیسہ بھیجتے ہیں؟” اس سوال کا واضح جواب ہے: نہیں!
بیرون ملک پاکستانی معیشت کے حقیقی ہیرو ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے وطن کو معاشی طور پر مضبوط کر رہے ہیں بلکہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بھی قابل ذکر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، حویلیاں میں ڈاکٹر خلیل اور خالد ضیاء نے ایک 50 بستروں پر مشتمل کڈنی سینٹر قائم کیا ہے، جو نہ صرف ہزارہ کے لیے بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک تحفہ ہے۔ یہ مرکز جدید سہولیات سے آراستہ ہے اور بہترین طبی خدمات فراہم کرتا ہے۔
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات محض معاہدے یا معاشی تعلقات نہیں بلکہ ایمان اور عقیدے پر مبنی ایک مضبوط دوستی ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستانیوں کو احترام اور مواقع فراہم کیے ہیں۔
میرے بچے، جیسے شکیل، جو سعودی عرب میں سات سال تک کام کر چکے ہیں، نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ یہ ملک ان کے لیے اجنبی ہے۔ یورپ کے برعکس، جہاں پاکستانی نسلیں اسلام سے دور ہو رہی ہیں، سعودی عرب کا ماحول مکمل طور پر اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے۔ سعودی عوام کی مہمان نوازی، محبت اور دیانت داری پاکستانی کمیونٹی کے لیے ایک مثال ہے۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں جب ہم جدہ سے مکہ مکرمہ جایا کرتے تھے۔ میرے بچے نوید، نبیل، شکیل، اور دلدار صفا و مروہ کے درمیان دوڑتے اور واپسی پر “البیک” کھانے کے لیے بے چین رہتے تھے۔ یہ لمحات نہ صرف خاندان کے لیے حسین یادیں ہیں بلکہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی خوبصورتی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی خدمات کو تسلیم کیا جائے۔ خواجہ آصف جیسے سیاستدانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بیرون ملک پاکستانی صرف زر مبادلہ کا ذریعہ نہیں بلکہ پاکستان کے معیشتی ستون ہیں۔
اس کے علاوہ، ہزارہ کے فرزند سجاد قمر کا ذکر بھی ضروری ہے۔ انہوں نے سعودی عرب میں نہ صرف اپنی محنت سے کامیابی حاصل کی بلکہ پاک سعودی تعلقات کو مضبوط کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
سجاد قمر کی کوششیں صرف ذاتی کامیابی تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے سعودی عرب میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور انہیں کامیابی کے راستے پر گامزن کرنے میں مدد دی۔ خالد ضیاء، ذوالقرنین علی خان اور شفقت دھول جیسی شخصیات کی کامیابی میں ان کی رہنمائی شامل رہی۔
یہ تمام کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ مخلص افراد نہ صرف اپنے وطن بلکہ عالمی سطح پر بھی مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔
آخر میں، ہزارہ کے خطے کی ترقی کے حوالے سے ہماری خدمات کا ذکر بھی ضروری ہے۔ حویلیاں کا کڈنی سینٹر اسی کوشش کا حصہ ہے۔ سردار خلیل اور ان جیسے دیگر افراد کو سلام پیش کرتا ہوں، جنہوں نے اس دھرتی کو ایک امید اور امن کا گہوارہ بنایا اور شاندار طبی سہولیات فراہم کیں۔
پاک سعودی تعلقات، بیرون ملک پاکستانیوں کی قربانیاں، اور ہزارہ کے لیے ہماری خدمات ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہیں۔ یہ تعلقات نہ صرف ہمارے ایمان کا حصہ ہیں بلکہ ترقی کے دروازے بھی کھولتے ہیں۔
پاکستان زندہ باد، سعودی عرب زندہ باد، اور پاک سعودی دوستی ہمیشہ قائم رہے