پاک بھارت چھ ستمبر 1965کی جنگ

1965کی پاک بھارت جنگ کو ستاون سال کا عرصہ گزر چکا ہے یہ جنگ پاکستان کی تاریخ کا ایک درخشاں باب سمجھا جاتا ہے بظاہر یہ جنگ چھ ستمبر کو شروع ہوئی جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے بین الاقوامی سرحد عبور کی مگر مورخین کے مطابق یہ جنگ 26اپریل 1965کو شروع ہوئی تھی جب پاکستانی فوج نے رن کچھ کے علاقے میں کنجر کوٹ اور بیارہیٹ کے علاقے پرقبضہ کیا تھا چند روز بعد برطانوی وزیراعظم ہیرلڈولسن نے دونوں حکومتوں کے مابین مفاہمت کروانے کیلئے اپنی خدمات پیش کیں چنانچہ 30جون 1965کو دونوں ممالک نے جنگ بندی کے ایک معاہدے پر دستخط کر دئے اور یہ معاملہ ایک بین الاقوامی ٹریبوزل کے سپرد کر دیا گیا جولائی 1965میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور پاکستان کی مسلح افواج نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو بھارت سے آزاد کروانے کیلئے ایک گوریلا آپریشن شروع کیا جسے جبرالٹر کا نام دیا گیا اس آپریشن کی منصوبہ بندی ایوب خان کی ہدایت پر12ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ جنرل اختر حسین ملک نے کی تھی جبکہ اسے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور سیکریٹری خارجہ عزیز احمد کی تائید بھی حاصل تھی آپریشن جبرالٹر کی ذمہ داری مسلم فاتحین سے موسوم طارق‘قاسم‘خالد‘صلاح الدین اور غزنوی نام کے پانچ دستوں کے سپرد کی گئی تھی 1965کو اپنے اپنے محازوں پر روانہ ہوئے اور 28 جولائی کو اپنی اپنی منزل پر پہنچ گئے اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ پاکستان خصوصا کشمیر کی تاریخ کا المناک باب ہے یہ تمام دستے اپنے مشن میں بری طرح ناکام ہوئے اور سوائے غزنوی کے جس نے بڈھل اور اس کے ملحقہ علاقوں پر اپنا قبضہ کر لیا تھا تمام کا تمام آپریشن جبرالٹر منتشر ہو کر دم توڑ گیا پاکستان کی فوجی قیادت نے آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد آپریشن گرینڈ سلام شروع کیا جس کا مقصد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں متصیل بھارتی فوج کی سپلائی لائن کاٹنے کی غرض سے ریل کے واحد رابطہ کو منقطع کرنے کیلئے اکھنور پر قبضہ کرنا تھا مگر یہ آپریشن بھی وقت کے موزوں انتخاب کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوا عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن‘آپریشن جبرالٹرسے پہلے ہو جانا چاہیے تھا آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد آپریشن گرینڈ سلام محض اقدام خودکشی تھا 25اگست کو بھارتی فوج نے دانا کے مقام پرقبضہ کر لیا اب بھارتی فوج مظفرآباد کے قریب تھی پھر 28اگست کو بھارتی فوج نے درہ حاجی فوج پر قبضہ کر لیا اس وقت آرمی چیف جنرل موسیٰ کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور وہ انتہائی کرب کے عالم میں وزیر خارجہ ذولفقار علی بھٹوکے پاس پہنچے اور کہا کہ میرے جوانوں کے پاس لڑنے کیلئے پتھروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے چھ ستمبر 1965کو بھارت نے بین الاقوامی سرحد عبور کر لی پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا پاکستان کے کچھ علاقے بھارت اور بھارت کے کچھ علاقے پاکستان کے قبضے میں آ گئے گیارہ ستمبر 1965کو سیکرٹری دفاع نذیر احمد نے جنرل ایوب کو بتایا کہ بعض ممالک نے پاکستان کو اسلحہ دینے سے انکار کر دیا ہے پندرہ ستمبر کو امریکی صدر جانسن نے امن کی درخواست کی اسی دن بھارت نے سلامتی کونسل میں بیان جاری کیا کہ ہم جنگ بندی کرنے کیلئے تیار ہیں مگر جنگ جاری رہی سترہ ستمبر کو عوامی جمہوریہ چین نے ایک بیان جاری کیا جس میں بھارت سے کہا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرے یہ وہ وقت تھا جب مغربی طاقتوں نے پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ جنگ بندی کا سمجھوتہ قبول کرلے
خود پاکستان بھی مسئلہ کشمیر کو فوجی طاقت کے بجائے سفارتی طاقت سے حل کرنے کے حق میں تھا ایسے موقع پر صدر ایوب خان نے مناسب سمجھا کہ وہ اپنے دیرینہ حلیف اور دوست چین کے وزیراعظم چواین لائی سے براہ راست مشاورت کریں چنانجہ 19اور20ستمبر کی درمیانی شب صدر ایوب خان پشاور سے ایک طیارے کے ذریعے بیجنگ پہنچے اور اگلی شب واپس آ گئے ایوب خان کے اس دورے کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا ایوان صدر میں روزمرہ کے معمول کو سختی سے برقرار رکھا گیا اس دورے میں ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے ہمراہ تھے دونوں نے چو این لائی اور مارشل چن ژی کے ساتھ دو طویل ملاقاتیں کیں ایوب خان نے چینی رہنماؤں کو صورت کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ بھارت نے کس طرح اپنی عدوی قوت کے بل بوتے پر جنگی برتری حاصل کرنا شروع کر دی ہے اور بھارت کو کس طرح مغربی ممالک کی مسلسل حمایت حاصل ہے جو سوویت یونین کو ثالثی کا کردار ادا کرنے پر آمادہ کررہے ہیں چین نے پاکستان سے واضح طور پر کہا کہ امریکہ اور روس دونوں ناقابل اعتبار ہیں اور پاکستان کو نہ ان کے سامنے جھکنا چاہئے اور نہ ہی ان پر اعتماد کرنا چاہیے ہاکستانی حکام ایک طویل جنگ لڑنے کیلئے آمادہ نہیں تھے اور جنگ بندی کے خواہاں تھے 20ستمبر 1965کو سلامتی کونسل نے ایک قراردارمنظور کی جس میں پاکستان اور بھارت کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ22اور23ستمبر کی درمیانی شب جنگ بند کر دیں اس مرحلے پر پاکستان نے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی کیلئے روانہ کیا تاکہ وہ سلامتی کونسل کے سامنے پاکستان کا موقف بیان کر سکیں اور اقوام متحدہ کو باور کرائیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کئے بغیر جنگ کا خاتمہ ممکن نہیں ذوالفقار علی بھٹو نے سلامتی کونسل میں بڑی پر اثر تقریر کی اور کہا کہ پاکستان پر ایک بڑے ملک نے حملہ کیا ہے اور اس وقت ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں انہوں نے اعلان کیا کہ اپنی بقا کی خاطر اگر ہمیں ایک ہزار سال تک بھارت سے لڑنا پڑے تو ہم لڑیں گے اس جنگ کے دوران ہی سوویت یونین نے پاکستان اور بھارت دونوں کو ایک پر امن معاہدے کا بندوبست کرنے کیلئے اپنی خدمات پیش کیں نومبر 1965میں بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے سوویت یونین جانے کیلئے تیار ہیں لیکن وہ کشمیر کے مسئلہ کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہر نوع کے مسائل پر بات چیت کرنے کیلئے تیار ہیں ادھر پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو بھی ماسکو پہنچے اور انہوں نے کہا کہ اگرچہ شاستری کا بیان مثبت نہیں ہے تاہم اس بیان میں مذاکرات پر آمادگی کا عنصر پایا جاتا ہے ایوب خان جنوری1966 کے پہلے ہفتے میں سولہ رکنی وفد کے ہمراہ روس کی جمہوریہ ازبکستان کے دارلحکومت تاشقند پہنچے ان کے وفد میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو وزیر اطلاعات و نشریات خواجہ شہاب الدین اور وزیر تجارت غلام فاروق کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی حکام شامل تھے پاکستان اور بھارت کے یہ تاریخی مذاکرات جن میں سوویت یونین نے ثالث کے فرائض انجام دیئے سات دن تک جاری رہی اس دوران کئی مرتبہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے کیونکہ بھارت کے وزیر اعظم شاستری نے ان مذاکرات میں کشمیر کا ذکر شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا ان کے نزدیک یہ مسئلہ طے شدہ تھا اور یہ مذاکرات صرف ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ہو رہے تھے جو حالیہ جنگ سے پیدا ہوئے تھے پاکستانی وفد کا خیال تھا کہ ایسے حالات میں مذاکرات بے مقصد ہوں گے اور پاکستان وفد کو معاہدہ کئے بغیر واپس لوٹ جانا چاہیے مگر مذاکرات کے آخری ایام میں سوویت وزیراعظم کوکسیجن نے صدر ایوب خان سے مسلسل کئی ملاقاتیں کیں اور انہیں بھارت کے ساتھ کسی نہ کسی سمجھوتے پر پہنچنے پر رضا مند کر لیا یوں
10جنوری 1966کو صدر ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم شاستری نے معاہدہ تاشقند پر دستخط ثبت کر دئے اس معاہدے کے تحت طے پایا کہ دونوں ممالک کی مسلح افواج اگلے ڈیڑھ ماہ میں 5اگست 1965سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی اور دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے منشور پر پابند رہتے ہوئے باہمی مذاکرات کی بنیاد پر حل کریں گے معاہدہ تاشقند پر دستخط صدر ایوب خان کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا غلط فیصلہ ثابت ہوا یہی وہ معاہدہ تھا جس کی بنا پر پاکستانی عوام میں ان کے خلاف غم وغصہ کی لہر پیدا ہوئی اور بالآخر ایوب خان کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا پاکستان عوام کا آج تک یہی خیال ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو تاشقند کی سر زمین پر ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا اور وہ جنگ جو خود حکومتی دعوؤں کے مطابق میدان میں جیتی جا چکی تھی معاہدے کی میز پر ہار دی گئی

اپنا تبصرہ بھیجیں