پاکستان کے معاشی سیاسی اور جوڈیشل بحرانوں کا ذمہ دار کون؟

پاکستان کو اس وقت بہت سنجیدہ معاشی سیاسی اور جوڈیشل بحرانوں کا سامنا ہے دوسری طرف ان بحرانوں کے ساتھ ایک دوسرے پر الزامات بھی زوروں پرہیں سیاستدان، عدالتیں ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ سب موجود ہ صورتحال کا ذمہ دار ایک دوسرے کوٹھہرارہے ہیں غو ر کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملکی تاریخ کے سنگین ترین اقتصادی سیاسی اور جو ڈیشل بحر ان کی ذمہ داری کسی ایک سیاسی جماعت پر نہیں ڈالی جاسکتی ملک کو تباہی کے دہا نے پر پہچانے میں سیاسی جماعتوں اسٹیبلشمنٹ اور بیو روکر یسی سمیت سب کا ہا تھ ہے ملک کے معاشی بحران کا سب سے زیادہ ذمہ دار طبقہ اشر افیہ کا ہے جس نے غلط پالیسیاں بنا کر،کر پشن کر کے ناجائر مراعات حاصل کر کے اور قر ضے معاف کر واکر ملک کو بحران سے دو چار کیا اور پھر آئی ایم ایف کا بہا نہ کر کے مشکل فیصلوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا

اس طبقہ کو سیا ستدانوں کا تعاون حاصل ہے انہیں ادارو ں سے ریلیف مل جاتا ہے اس لئے آج بھی بجٹ خسارہ دردرست کرنے کے لئے شاہانہ حکومتی اخراجات کم کرنے کابینہ کا سائزچھو ٹا کر نے اور کرپشن کے خاتمہ کے لئے مؤثر اقدامات کر نے کے سارا بوجھ غریب عوام پرڈال دیا گیا ہے اشرافیہ کا یہ ما فیا ٹیکس ایمنسٹی کے نام پر ٹیکس چوری کی بھی حوصلہ افزائی کر تا ہے ڈالر کی اسمگلنگ آنکھیں بند کر لیتا ہے اور اپنے سیاسی مفاد کے لئے آئی آیم ایف کے ساتھ معاہد ہ توڑ دیتا ہے پاکستان کی بائیس فی صد زرعی زمین اس وقت ایک فیٖ صد اشرافیہ کے پاس ہے جو کہ اس سے ایک ہزارارب روپے مالانہ کماکر صرف تین ارب روپے کا ٹیکس ادا کر تی ہے دوسری طرف اشیائے خوردونوش کی چیزوں پرٹیکس لگا کر غریب لوگوں سے پانچ سو ارب روپے لئے جاتے ہیں موجودہ بحران میں سول اور ملٹری دونوں طرح کی حکومتیں شامل ہیں ملک کو درکا ر ضروری معاشی اصلاحات کر نے، معیشت کو دستاویزی بنانے اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں سے جان چھڑانے کے لئے جتنی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے وہ دیکھنے میں نہیں آئی معاشی بحران ملکی تاریح کا سب سے زیادہ پریشان کن اور مشکل بحران ہے یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ کووڈ کی وبا، تاریح کے بد ترین سیلاب، عالمی کساد بازاری اور یوکرین،روس کے درمیان جنگ سے پیدا ہونے والے حالات نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے

صرف آٹھ سا ل کے قلیل عرصے میں ملکی قرضہ دگنا ہوگئے ہیں پاکستان پر ایک سو تیس ارب ڈالر کے قرضے واجب الادا ہیں اور ہر سال قر ضے کی ادائیگی کے لئے تیرہ ارب ڈالر درکار ہیں اور ملک کو ضرروی امپورٹس کے لئے ہر ماہ چھ ارب ڈالر وں کی ضرورت ہے لیکن ملکی زرمبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالر سے نیچے جاچکے ہیں پاکستان کو درپیش سنگین اقتصادی بحران ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب ملک کا سیاسی اور عدالتی نظام بھی بحرانی کیفیت کا شکار ہے اور ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں اور دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے یہ ایک ایسا وقت ہے جب ملک میں ریاست اور عوام کا رشتہ بھی بحرانی کیفیت سے دوچار ہے اس اقتصادی بحران کی ذمہ داراشرافیہ ہے جس نے ملکی میشت کی ڈرائیونگ سیٹ پر ٹیلنٹ اور انٹر پرائزر کے بجائے بیرونی قرضوں کو بٹھا دیا ہے ملک کے معاشی فیصلے تو دوسو تیس ملین لوگو ں کے لئے چاہیں نہ کہ صرف ایک ملین مراعات یافتہ لوگوں کے لئے۔ملک پاکستان کے موجود ہ بحران کے ذمہ داروہ لوگ ہیں جو پچھلے تیس سالوں میں بر سر اقتدار رہے ہیں اور انہوں نے اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد ات کو ملکی مفاد ات پر ترجیح دی یہ لوگ حکومت جاتے دیکھ کر کبھی آئی ایم ایف سے معاہد ہ توڑدیتے ہیں اور کبھی اس معاہد ے کو شکار کر کے ملک کو مشکلات میں ڈال دیتے

ہیں اگر عدالتیں نظریہ ضرورت سے بالاتر ہو کر کا م کریں اور اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرتی تو ملک کی معیشت پر بہتر اثرات ممکن ہوسکتے تھے سیاست کے بحران نے غریب عوام کا بیڑاغرق کر دیا ہے دیہاڑی دار،مزدور پیشہ ور شخص کے لئے دو وقت کا کھانا مشکل ہو گیا ہے کیا سیاستدان بھی یہ مانتے ہیں کہ اس بحران اور افراتفری کے ذمہ دار وہ خود ہیں یا اسٹیبلشمنٹ خود کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے؟بظاہر ملکی معاشی سیاسی صو رتحال کی ذمہ داری لینے کو کوئی بھی تیارنہیں کو ئی مخالفین کو فساد کی جڑ قرار دیتا ہے تو کو ئی سمجھتا ہے کہ یہ سب اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے اور کہیں عدلیہ اور ملٹری کی جانب بھی اشاروں کنا یوں میں بات کی جارہی ہے خیال رہے کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران کا آغاز اس وقت ہو ا

جب گزشتہ برس عمران خا ن کو پا رلیمان میں تحر یک عدم اعتماد کا سامنا کر نا پڑا اور اُن کی حکو مت کا خاتمہ ہوا تب سے ملک میں احتجاج، ہنگا مے اور بے یقینی کی صو رتحال جاری ہے اس کے بعد عمران خان نے جس طرح سیاسی بیانات دئیے کہ ملک ڈیفالٹ کر رہا ہے جس کی وجہ سے کاروباری افراد اور عام آدمی یہ سمجھ بیٹھے کہ ملک ڈیفالٹ کررہا ہے عمران خان کے بیانات کی وجہ سے ملک کے اندر اور باہر شدید بے چینی پیدا ہوئی لوگوں نے پیسہ سرمایہ کاری میں لگانے کے بجائے سو نا اور پر اپرٹی میں لگانا شروع کردیا بنکنگ چینل سے ترسیلات آنا کم ہو گئیں جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں بڑھ گئی عمران خان پاکستان کی معیشت میں آئی ائم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزیوں سے لے کر دوست ممالک کو ناراض کرنے کے عمل کے ذریعے بارودی سر نگیں بچھا چکا تھا لیکن حکومت سے جانے کے بعد بھی سیاسی عدم استحکا م، احتجاج اور بیانات سے پوری کوشش کی ملکی معشیت میں بگاڑ پیدا ہو ہمیشہ خود انحصار اور قرضوں کے شدید مخالف عمران خان کا دور حکومت پاکستان کے لئے سب سے خوفناک رہا’

پی ٹی آئی حکومت نے چار سالوں میں 49.23 ارب ڈالر کا قرض لیا جو تاریخ میں کسی بھی حکومت کا سب سے زیادہ قر ض ہے یہی نہیں بلکہ وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کو ایسے افراد کے حوالے کیا جو ہمارے نہیں بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے نمائندے تھے اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے بنیادی معاشی مثال کیا ہے؟ پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک ہے ہر سال قرضوں کی قیمتیں پڑھتی جارہی ہیں قرض واپسی کے لیے مزید قرض لینا پڑرہا ہے آئندہ تین برس میں یعنی مالی 2025تا 2023 کے دوران پاکستان کو تہترارب ڈالر قرض واپس کرنا ہے بیرونی قرضے سے نجات حاصل کرنے کے لئے کیا طریقہ کا ہوسکتا ہے؟ اس پر سوچنا اور اس پر کام کرنا انتہائی ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ معاملات ہاتھوں سے نکل جائیں اور پھر پچھتانا پڑجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں