پاکستان کی ترقی جامع منصوبہ بندی کی ضرورت

پاکستان تقریباً بائیس کروڑ نفوس کی آبادی پر مشتمل ہے وطن عزیز دنیا کے ان خوش نصیب خطوں میں شامل ہے جہاں پر چاروں موسم‘ ذرخیز میدان‘ دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے‘ وسیع وعریض صحرا سمندر‘قدرتی وسائل سے مالامال اور بہترین جغرافیائی محلِ وقوع پر واقع ہے دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جو ایسی نعمتوں سے محروم ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ترقی میں ہم سے آگے ہیں ان ممالک کی ترقی کی اصل وجہ اپنے ملک کی تمام ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی باریک بینی سے لمبے عرصے کی منصوبہ بندی ہے پھر اس منصوبہ بندی میں طے کردہ اہداف کے حصول کے لیے سخت محنت ہے جیسے روس چین کوریا اور سعودی عرب کا وژن 2030 اس کی واضح مثالیں ہیں ان کی ترقی اسی منصوبہ بندی اور ان اہداف کے حصول کے لیے انتھک محنت شامل ہے اگر ماضی میں جھانکا جائے تو ہمارے ہاں بھی کبھی پانچ سالہ منصوبوں کی بڑی گھن گرج اور دھوم دھام ہوا کرتی تھی ہمارے پانچ سالہ منصوبے کو لے کر جرمنی نے اسے اپنے ہاں شروع کیا آج وہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اورہم وہیں پر کھڑے ہیں ہم نے سوویت یونین کی ترقی سے متاثر ہو کر پانچ سالہ منصوبہ بندی شروع کی تھی ہمارے وزیر خزانہ ملک غلام محمد (جو بعد میں گورنر جنرل بھی رہے) نے پاکستان کا پہلا پانچ سالہ منصوبہ بنا کر وزیراعظم لیاقت علی خان کو 1948 میں پیش کیا کابینہ نے 1950- 1955 پہلا ترقیاتی پروگرام منظور کیا لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر شروع نہ کیا جا سکا بلکہ بعد میں اسی منصوبہ کو 1955_1960 میں بدل دیا گیا اس اقتصادی منصوبے کے باعث ملکی آمدنی (نیشنل انکم) میں 11 فیصد اضافہ ہوا اور فی کس آمدن میں 3 فیصد اضافہ بھی دیکھنے میں آیا پاکستان کا دوسرا پانچ سالہ منصوبہ 1960-65 نے اپنے تمام تر اقتصادی اہداف کامیابی سے مکمل کئے اور 1965 میں دوسرے منصوبے کے اختتام پر پاکستان کی سالانہ ترقی کی شرح 5.5 فیصد تھی جو اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں زیادہ تھی یہ منصوبے نوے تک کامیابی سے چلتے رہے ہمارے ہاں یہ ماڈل بہت ہی اچھے انداز سے کامیابی کی منازل طے کر سکتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں پانچ سالہ حکومتی دورانیہ مقرر ہے جو بھی حکومت آئے وہ اپنے پانچ سالہ منصوبہ میں مقرر کردہ اہداف عوام کے سامنے رکھے اگلے الیکشن میں وہ اپنی کارکردگی اور دوسری پارٹیاں اس کی ناکامیوں پر تنقید اور اپنے پانچ سالہ اہداف کو عوام کے سامنے پیش کریں تاکہ عوام الناس بھی کوئی بہتر فیصلہ کر سکیں جب تک ہم نے یہ پانچ سالہ منصوبے بنائے ان ادوار میں ہماری معیشت بھی بہت بہتر تھی فی کس آمدن بہت اچھی ہم ترقی کی راہ پر چل رہے تھے حصوصا ًزرعی اجناس میں خود کفیل ہی نہیں تھے بلکہ ہماری زراعت کثیر زرمبادلہ کا ذریعہ تھی جب سے دو پارٹیوں نے آپسی ملی بھگت سے جمہوریت جمہوریت کھیلنا شروع کیا ہے اس وقت سے ہماری ساری توجہ ملک سے ہٹ کر پارٹی پر آگئی ہے یہ کوئی نہیں سوچتا کہ ملک ہے تو پارٹی ہے ہماری ترقی کی راہ میں کئی چیزیں حائل ہیں جن میں سب سے پہلی اور اہم چیز مستقبل کی منصوبہ بندی کو ترک کرنا ہے دوئم حوص و لالچ اس کی تازگی ترین مثال راولپنڈی رنگ روڈ کا منصوبہ ہے جس میں چند مفاد پرستوں نے چند ٹکوں کی خاطر اور اپنی قریبی لوگوں کو نوازنے کے لیے پورے منصوبے کا حلیہ ہی سرے سے بگاڑ دیا جس کے بعد اتنے شکوک وشبہات پیدا ہوئے کہ منصوبہ ہی کھٹائی میں جا پڑا منصوبہ بھی بند ہو گیا اور کروڑوں کا نقصان بھی ہو گیا اب اس میں
جتنی تاخیر ہو گی اتنی ہی اس کے اخراجات بھی بڑھ جائیں گے سوئم خود غرضی اور نمود و نمائش ہماری اس خود غرضی اور نمود و نمائش سے چاہے ہمارے ملک کو جتنا مرضی نقصان ہو ہونے دو اس سے ہمیں فرق نہیں پڑتا لیکن ہم نے دوسرے کا شروع کیا ہوا منصوبہ مکمل نہیں ہونے دینا کیونکہ اس منصوبے کا کریڈٹ شروع کرنے والے نے لینا ہے اس لیے کسی صورت اسے پورا نہیں ہونے دینا ہے دوسرے الفاظ میں اسے اس کا کریڈٹ کیوں لینے دوں جہاں تک ہو سکے گا رکاوٹ پیدا کروں گا اس کی بھی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں سے ایک پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت کی بھی ہے جسے چوہدری پرویز الہٰی نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں شروع کیا تھا لیکن بعد میں آنے والوں نے کام روک دیا جس سے اس کی مجموعی لاگت بڑھ گئی جس کی وجہ سے ملک کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا لیکن ہماری صحت پر کون سا فرق پڑتا ہے ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ہم نے اپنی زراعت کو تباہ کر دیا جن چیزوں سے ہم کثیر زرمبادلہ کماتے تھے آج وہ دوسرے ملکوں سے منگواتے ہیں دنیا بلٹ ٹرین چلا رہی ہے اور ہلم نے ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ریلوے کو اس حالت سے بھی بد تر کر دیا ہے جس حالت میں انگریز چھوڑ کر گے تھے بلکہ اس میں بھی کئی علاقوں سے ٹریک ہی ختم کر دیا ہے دیکھ لیں پانی کی کتنی ضرورت ہے اس کے باوجود ہم ڈیم نہ بنا کر بے شمار پانی ضائع کر رہے ہیں ذرا غور کریں جو ڈیم موجود ہیں وہ کب بنے تھے اگر ہم اپنے ملک کو اس دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں تو اپوزیشن اور حکومت کو ملکر ساری مصلحتوں سے پاک ہو کر پارٹی مفادات سے بالا ہو کر مضبوط بنیادوں پرانتہائی باریک بینی سے منصوبہ بندی کرنا پڑے گی اور پھر اس منصوبہ بندی پر جان کی بازی لگا کر مکمل کرنا ہوگا حکومت چاہے جس کی بھی ہو تب جا کر منزل ملے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں