پاکستان کو رہبانیت ترک کرناہو گی

موجودہ دور میں کوئی ملک تنہانہیں رہ سکتا، اسے دوسرے ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کو فروغ دینا پڑتا ہے کیونکہ عصر حاضر معاشی دوڑ کا زمانہ  ہے جس میں تمام ممالک معیشت کی مضبوطی پر توجہ دے رہے ہیں کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ اب ہتھیاروں سے جنگیں لڑنے والا دور چلا گیا ہے اب جنگ معاشی میدانوں میں ہو رہی ہے، تمام ممالک اس میدان میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس ملک کی معیشت مضبوط ہو اس کے پاس چاہے دفاعی لحاظ سے قبل ذکر وسائل نہ ہوں اس کے باوجود  وہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتا ہے اس کے برعکس کسی ملک کا دفاع تو مضبوط ہو لیکن اس کی معاشی حالت بہتر نہ ہو تو اسے کوئی نہیں پوچھتا۔ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جاتا ہے، وہ عالمی اداروں سے قرض مانگ مانگ کر اتنا کمزور ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ ادارے اور ان اداروں کے سربراہ ممالک اس ملک کو اپنے مفادات کے لیے با آسانی استعمال کرنے لگتے ہیں۔ یہ اداراک پوری دنیا کو ہے جس کی وجہ سے سب ممالک معیشت پر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور اس میدان میں اپنے قدم جمانے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہیں۔
اس کے لیے پہلے تو ملک میں اندر صنعتیں قائم کی جاتی ہیں اور مختلف قسم کی اشیاء تیار کی جاتی ہیں پھر انہیں دیگر ممالک کو فروخت کر کے ذرمبادلہ کمایا جاتا ہے یا ملکی غذائی اجناس اور ذرعی پیداوار جو عوامی ضروریات سے زائد ہوں انہیں دیگر ممالک کر فروخت کیا جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر ممالک سے خام مال یا اپنی ضرورت کی اشیاء درآمد کی جاتی ہیں تبھی معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔ ان درآمدات و برآمدات کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے ان کے ساتھ مختلف قسم کے معاہدات کیے جاتے ہیں، ترقی یافتہ ممالک کو ملک کے اندر سرمایہ کاری کی دعوت دی جاتی ہے اور ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ ملک میں سرمایہ کاری پر تیار ہو جائیں۔ 
اس سارے عمل کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کیے جاتے ہیں، وقتاً فوقتاً وہاں کے دورے کیے جاتے ہیں، سربراہان حکومت،سربراہان افواج اور دیگر وزراء و اہم امور کے نگران مختلف ممالک کے دورے کرتے ہیں وہاں ہم منصبوں سے ملاقات کے علاوہ اہم سیاسی، سماجی و کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور اپنے ملک کی ضروریات کی تکمیل کے لیے انہیں ترغیب بھی دیتے ہیں اور ان کے ساتھ معاہدات بھی کرتے ہیں۔ یوں جب دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہو جاتے ہیں تو ملکی معیشت بھی درست سمت گامزن ہو جاتی ہے۔ اسی کے مطابق تمام ممالک اپنی خارجہ پالیسی بنانے اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ 
بدقسمتی سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں دوسرے ممالک کے ساتھ بہترین اور پرجوش تعلقات کی شق نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اس پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ یہاں حکومت صرف باتیں کرنے میں ہی مگن ہے۔ دنیا تو کیا خطے کے ممالک سے بھی ہمارے اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ اگر خطے کے ممالک کو ہی دیکھیں تو انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، مالدیپ اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ ایک بہترین تعلقات کے دور سے گزر رہے ہیں، آئے روز کسی نہ کسی ملک کا وفد دوسرے ملک کا دورہ کر رہا ہے، آرمی چیف، وزراء اور دیگر اعلیٰ عہدیداران و ماہرین دوسرے ممالک کے دورے کر رہے ہیں 

آپ گزشتہ چند ماہ کی خبریں ہی دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کس قدر قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ پھر جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ بھی ان ممالک نے بہترین تعلقات قائم کررہے ہیں۔ ان ممالک کے وفود کے دور ے بھی ہوتے رہتے ہیں اور یہ خود بھی تمام بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح ترقی یافتہ ممالک کے وزراء چھوٹے چھوٹے غریب ممالک کے دورے کر کے ان سے تعلقات بہتر بنا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں امریکہ کے سٹیٹ سیکرٹری افریقہ کے دورے پر ہیں وہاں کئی ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں اور مختلف معاہدات کر رہے ہیں۔اسی طرح ایک خاتون سیکرٹری سنگاپور کے دورے پر ہیں، یہ ممالک انہیں بہترین مارکیٹیں فراہم کرتے ہیں، جو ان کی معاشی ترقی کا ایک اہم راز ہے۔
ایک ہم ہیں کہ کسی بھی ملک سے ہمارے قابل ذکر تعلقات نہیں ہیں۔ بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا وغیرہ تو جنوبی ایشیائی ممالک ہیں ان کے ساتھ بھی پاکستان کے کوئی خاطر خواہ تعلقات نہیں ہیں نہ ہی ہمارے وزراء و اعلیٰ عہدیداران ان ممالک کے دورے کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں یہاں مدعو کرتے ہیں۔ پھر کسی اسلامی ملک کے ساتھ بھی ہم نے صحیح طرح نہیں بنائی، نہ کوئی معاشی تعلقات ہیں اور نہ ہیں سیاسی و سفارتی۔ نہ کشمیر کے مسئلے پر ہمارے ساتھ کوئی کھڑا ہوتا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی اداروں میں کوئی ہماری تائید کرتا ہے۔ ہم تو بالکل رہبانیت اختیار کر چکے ہیں۔ ہماری حکومتوں کو اس کی پرواہ ہی نہیں ہے۔ صرف اپوزیشن کو چور چور کہنے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں، نہ ملک کے اندر کوئی کام کر پا رہے ہیں اور نہ ہی عالمی سطح پر کوئی خاطر خواہ تعلقات بنا سکے ہیں۔ صرف چین کے ساتھ تھوڑے بہت جو تعلقات ہیں وہ بھی چین کے اپنے مفادات ہیں ورنہ اسے ہم نے کیا دینا ہے؟ باقی دنیا کا کوئی ملک بھی ایسا نہیں ہے جس پر ہم بھروسہ کر سکیں اور وہ ہمارے ساتھ ہر طرح کے تعلقات گرم جوشی کے ساتھ رکھے۔
اگر ہم دنیا میں عزت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور ملک کو سنجیدگی کے ساتھ ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں تو اس راہبانہ روش کو ترک کرنا ہو گا۔ دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔ اس کے لیے مختلف ممالک کے دورے کرنے اور وہاں کے سرمایہ کاروں کو ملک مں سرمایہ کاری کی دعوت دینی ہوگی۔بہتر سفارتی تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔ اس بات پر یقین کرنا ہو گا کہ کوئی ملک اس دور میں الگ تھلگ نہیں رہ سکتا بلکہ پوری دنیا کے ساتھ ملک جل کر ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہو ا جا سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں