پاکستان کا مجموعی قرضہ

اپریل 2022ء تک پاکستان کے قرض کے حوالے سے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 29کروڑ روپے کی کمی ہوئی جواب43ہزار 704ارب روپے ہوگیا پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم 127ارب ڈالر سے تجاوز کرتے ہوئے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے قرض کے اس مجموعی بوجھ میں آئی ایم ایف‘بین الاقوامی مالیاتی اداروں‘ پریس کلب اورغیر ممالک سے لئے گئے قرضوں کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر کمرشل بنکوں سے حاصل قرضے بھی شامل ہیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت‘پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی گذشتہ حکومتوں کو پاکستان کے قرضوں میں اضافے پر مورود الزام ٹھہراتی ہے تاہم اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے 39ماہ کے اقتدار میں اس کی قرضہ لینے کی رفتار سابقہ حکومتوں سے زیادہ دکھائی دیتی ہے پاکستان تحریک انصاف حکومت کی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے ملک مالیاتی بگاڑ کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے اسے قرضہ پر انصار کرنا پڑا اور یوں ملک کے ذمے واجب الادا قرضے میں مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آیا سابقہ دو حکومتوں کے مقابلے میں تحریک انصاف کے دور میں قرضے لینے کی رفتار نسبتاََ زیادہ رہی ہے 2008 میں جب پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت ملک کے ذمے واجب الادا غیر ملکی قرضہ45ارب ڈالر تھا پی پی حکومت کے خاتمہ تک یہ قرضہ 61ارب ڈالر تک جا پہنچا اورپانچ سال بعد نواز لیگ کی حکومت کے اختتام کے وقت جون 2018میں حجم95ارب ڈالر تک جا پہنچا اس کے بعد یہ قرضہ ستمبر 2021کے آخری ہفتے تک 127ارب ڈالر تک جا پہنچا پی پی پی کے پانچ برسوں میں غیر ملکی قرضے میں 16ارب ڈالر جبکہ نواز لیگ کے پانچ برسوں میں 34ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اس کے مقابلے میں تحریک انصاف حکومت کے 39 مہینوں میں ہی غیر ملکی قرضے میں 32ارب ڈالر کا اضافہ ہوا1947سے لے کر 2008تک ملک کے ذمے واجب الاداقرضوں کا حجم صرف چھ ہزار ارب ڈالر تھا جو صرف تیرہ برسوں میں پچاس ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا2008میں جو قرضہ چھ ہزار ارب ڈالر تھا وہ دس برسوں میں تیس ہزار ارب ڈالر تک جا پہنچا جبکہ تحریک انصاف کی حکومت کے صرف 39مہینوں میں اس قرضے میں بیس ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور اس کا حجم پچاس ہزار ارب ڈالر سے اوپر جا پہنچا پی پی پی حکومت میں قرضے لینے کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو حکومت ہر روز پانچ ارب روپے کا قرضہ لے رہی تھی نواز لیگ ہر روز آٹھ ارب روپے کا قرضہ لے رہی تھی جبکہ تحریک انصاف کی حکومت ہر روز سترہ ارب روپے کا قرضہ لے رہی تھی جو اس کی زیادہ قرضہ لینے کی رفتار کو ظاہر کرتا ہے تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ زیادہ قرضہ لینے کی ایک وجہ پرانے قرضوں کی سود سمیت واپسی ہے اگرچہ پی ٹی آئی حکومت کے اس دعوے میں کچھ حقیقت ہے لیکن یہ پوری صورتحال کی منظر کشی نہیں کرتا کیونکہ اگر حکومت نے پرانا قرضہ لوٹایا بھی ہے تو اس کے ساتھ اس نے اخراجات پورا کرنے کے لئے قرضہ لیا بھی ہے واضح رہے کہ یہ قرضہ صرف بیرونی قرضہ ہے اس کے علاوہ حکومت مقامی طور پر بھی بنکوں سے قرضہ لیتی رہی ہے پرانے قرضہ کی ادائیگی کے ساتھ قرض میں نئے اضافہ کی وجہ ملک کا جاری کھاتوں کا خسارہ ہے جسے قرضہ لے کر پورا کیا جاتا ہے اگرچہ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے مالی سال میں تیرہ ارب ڈالر کا جاری کھاتوں کا خسارہ تھا جسے دوسرے سال سات ارب ڈالر تک نیچے لایا گیا اور اگلے سال یہ 1.8ارب ڈالر رہ گیا تھا ملک کے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے ساٹھ فیصد انحصار مقامی طور پر حاصل
کئے گئے قرضہ ہیں جبکہ بیرونی محاذ پر چونکہ برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری کم ہے اور اس کے مقابلے میں درآمدات زیادہ ہیں اس لئے اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے بیرونی قرضہ لیا جاتا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں بھی ایسا ہی ہوا قرضہ لیتے لیتے 2019میں یہ قرضے دگنا ہو گئے ملک کے ذمے آدھے سے زیادہ قرضوں کی وجہ آئی ایم ایف ہے تحریک انصاف کی حکومت آئی تو پہلے سال شرح سود کو 6.50 سے 13.25کردیا گیا اور اب شہبازشریف کی حکومت نے شرح سود بڑھا کر پندرہ فیصد کر دی ہے اور اسی طرح شرح مبادلہ روز بروز بڑھتے ہوئے اب 330روپے فی ڈالر تک جاپہنچی ہے اور صرف ان دو اقدامات نے قرضے میں 8873ارب روپے کی اضافہ کیا اور دوسرے سال میں مزید 3644ارب روپے کا اضافہ ہواجو سب آئی ایم ایف پروگرام کے تحت شرائط کی وجہ سے ہوا آئی ایم ایف کے پاس جانے کا راستہ حکومت نے خود چنا جبکہ یہ پتہ تھا کہ یہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا پروگرام پاکستان کی معیشت کے لئے صرف نقصان دہ ثابت ہو گا پی پی پی حکومت نے آئی ایم ایف سے نوپروگراموں کا معاہدہ کیا اور ایک معاہدہ بھی پورا نہیں کیا2009میں اس نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا جس میں دس ارب ڈالر ملنے کی امید تھی پی پی پی نے آٹھ ارب ڈالر وصول کئے اور پروگرام مکمل نہیں کیا نواز لیگ نے چار پروگرام کا معاہدہ کیا اور ایک پروگرام مکمل کیا اور ساڑھے چھ ارب ڈالر حاصل کئے چنانچہ ان حکومتوں کی جانب سے آئی ایم ایف سے لئے گئے قرضے بھی پی ٹی آئی حکومت کے ذمے آگئے پی ٹی آئی حکومت نے صرف ایک پروگرام کا معاہدہ کیا اور چھ ارب ڈالر میں سے صرف تین ارب ڈالر وصول کئے ہیں پاکستان جیسے ترقی پذید ملکوں کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے قرضہ لینا پڑتا ہے اور قرضہ لینا کوئی بری بات نہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ یہ قرضہ کیسے اور کہا ں خرچ ہوتا ہے اگر یہ قرضہ پیداواری شعبے کو بڑھا نے کے لئے خرچ کیا جاتا ہے اور اس سے معیشت کا حجم بڑھ رہا ہوتا ہے تو یہ بہت اچھی پالیسی ہے قرضہ ایک دور بھاری تلوار ہے اسے آپ اپنے فائدے اور نقصان کے لئے استعمال کر سکتے ہیں یہ آپ پرمنحصرہے کہ آپ اسے کیسے استعمال کرتے ہیں اگر ملک بیرونی قرضہ لے کر اپنی آمدنی بڑھتا ہے اور اثاثے بناتا ہے تو ایسا قرضہ لینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے جیسا کہ ہم نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں دیکھا کہ قرض لے کر میگا پراجیکٹس یعنی ڈیم وغیرہ بنائے گئے تاہم نوے کی دہائی سے جس پالیسی کے تحت قرضہ لیا جارہا ہے وہ لون پروگرامز ہوتے ہیں جب بیرون ملک سے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے قرضہ لیا جاتا ہے تو اس کا معیشت اور ملک پر بہت منفی اثر پڑتا ہے اور ملک قرضوں کے چنگل میں پھنستا چلا جاتا ہے ملک پرلدے ہوئے بیرونی قرضے سے نجات حاصل کرنے کے لئے ملک کی آمدنی پڑھانا سب سے ضروری ہے اور درآمدات کو کم کرنا اور برآمدات کو بڑھاناہو گا اور ملک بھی ایسی پالیسی اپنانی ہوگی جس میں غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنا ہوگا اور اسی طرح دفاعی شعبے میں غیر جنگی اخراجات کو کم کرنا ہوگا اور صرف یہ دو کام کرنے سے ملک کو سالانہ اخراجات کی مدمیں تقریباََ ایک کھرب روپے کی بچت ہوگی جس سے ملک کا بیرونی قرضہ پر انحصار کم ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں