یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا خواب ہوتا ہے لیکن اسکی حقیقت تک پہنچنا سب کے بس کی بات نہیں ہمارے دور میں جہاں آمدن کم تھی وہاں تعلیم اتنی مہنگی بھی نہ تھی صاف ستھرا ماحول تھا لیکن اب حالات یکسر بدل چکے اب تو پتہ چلتاہے کہ یونیورسٹیاں شائد تعلیم کے علاوہ سب کچھ دے رہی ہیں.
محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر مرحوم سے زندگی میں ایک ہی ملاقات رہی انکا قول تھا کہ ہمارے ہاں تعلیم کاروبار بن چکا اب تو ٹینٹ میں بھی یونیورسٹیاں کھل چکی ہیں یونیورسٹیاں کسی بھی قوم کا علمی، فکری اور اخلاقی مرکز ہوتی ہیں، جہاں نئی نسل کو نہ صرف تعلیم دی جاتی ہے بلکہ ان کی شخصیت اور کردار کی تعمیر بھی کی جاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں میں ایک خطرناک اور افسوسناک رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے، اور وہ ہے منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال۔ یہ رجحان نوجوانوں کے روشن مستقبل کے لیے ایک سیاہ دھبہ بنتا جا رہا ہے، جو صرف انفرادی سطح پر نقصان دہ نہیں بلکہ اجتماعی طور پر بھی ہمارے تعلیمی اور معاشرتی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔
منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیچھے کئی وجوہات کارفرما ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تعلیمی دباؤ اور نفسیاتی تناؤ ہے، جس کا سامنا طلباء کو بہتر کارکردگی، گریڈز اور مستقبل کے حوالے سے مسلسل رہتا ہے۔ جب یہ دباؤ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے تو نوجوان اکثر ایسے غلط راستے اختیار کرتے ہیں جو وقتی طور پر انہیں سکون دیتے ہیں، لیکن مستقل طور پر ان کی زندگی کو تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ یونیورسٹیوں میں دوستوں کے اثرات یعنی بری صحبت، خود کو دوسروں جیسا دکھانے کی خواہش، اور آزادی کا غلط استعمال بھی نوجوانوں کو نشے کی طرف مائل کرتا ہے۔ ہوسٹل کی زندگی میں والدین کی عدم موجودگی اور نگرانی کی کمی بھی اس رحجان کو بڑھاوا دیتی ہے۔ سوشل میڈیا، فلموں اور ڈراموں میں نشہ کو بطور “فیشن” پیش کرنا بھی ایک ذہنی زہر ہے، جو رفتہ رفتہ طلباء کے نظریات اور رویوں کو متاثر کرتا ہے۔
اس خطرناک رجحان کے اثرات نہایت سنگین ہیں۔ نشہ کرنے والے نوجوان تعلیمی سرگرمیوں سے کٹ جاتے ہیں، ان کی دلچسپی کم ہو جاتی ہے اور وہ اکثر امتحانات میں فیل ہو جاتے ہیں یا یونیورسٹی ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ جسمانی اور ذہنی صحت پر اس کے مہلک اثرات الگ ہیں، جن میں یادداشت کی کمزوری، بے چینی، ڈپریشن، اور بعض صورتوں میں موت تک شامل ہے۔ نشے کی لت کے باعث کئی نوجوان جرائم کی دنیا میں قدم رکھ لیتے ہیں، کیونکہ جب ان کے پاس نشہ خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تو وہ چوری، ڈکیتی یا دیگر غیر قانونی ذرائع اختیار کرتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ ساتھ ایک نشہ کرنے والا فرد صرف اپنی زندگی ہی نہیں برباد کرتا بلکہ اپنے خاندان کی عزت، اعتماد اور امن کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں سنجیدہ اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ منشیات کے خلاف آگاہی مہمات چلائیں، جن کے ذریعے طلباء کو اس کے نقصانات سے واقف کروایا جائے۔ ساتھ ہی ہر یونیورسٹی میں کونسلنگ سینٹرز قائم کیے جائیں، جہاں ذہنی دباؤ یا کسی بھی قسم کی پریشانی میں مبتلا نوجوانوں کو مدد فراہم کی جائے۔ تعلیمی اداروں میں سخت قوانین بنانے اور ان پر عملدرآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے،
تاکہ کوئی بھی فرد منشیات کا استعمال کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جا سکے۔ والدین اور اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ نوجوانوں کے ساتھ دوستانہ اور قابلِ اعتماد تعلق قائم کریں، تاکہ اگر کبھی وہ کسی الجھن کا شکار ہوں تو کھل کر بات کر سکیں۔ اس کے علاوہ طلباء کی توانائی کو مثبت سمت دینے کے لیے کھیل، ادبی سرگرمیوں اور معاشرتی پروجیکٹس کو فروغ دینا بھی ناگزیر ہے۔
اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں اور اس ناسور کو نظر انداز کرتے رہے تو ہمیں ایک ایسی نسل کا سامنا ہوگا جو نہ صرف تعلیمی میدان میں ناکام ہو گی بلکہ معاشرتی طور پر بھی ایک بوجھ بن جائے گی۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس سنگین مسئلے کے خلاف متحد ہو جائیں اور اپنے تعلیمی اداروں کو منشیات سے پاک، محفوظ اور صحت مند ماحول فراہم کریں تاکہ ہمارا مستقبل روشن، باشعور اور باکردار ہو اللہ میرے ملک کو منشیات جیسے ناسور سے پاک کرے