پاکستان میں مذہب اور معاشرت کے نام پر فضول رسم و رواج فروغ پا چکے ہیں

جشن و تہوار منانا، خوشی کی تقریبات و تفریحات کا اہتمام کرنا انسانی فطرت ہے اور ضرورت بھی، بلکہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کو خوشیاں بہم پہنچانے والے لوازمات کی اب بھی شدید کمی محسوس ہوتی ہے، اسی طرح غم و الم و ماتم کی رسومات نبھانا بھی معاشرتی زندگی کا حصہ ہے

جشن و تہوار منانا، خوشی کی تقریبات و تفریحات کا اہتمام کرنا انسانی فطرت ہے اور ضرورت بھی، بلکہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کو خوشیاں بہم پہنچانے والے لوازمات کی اب بھی شدید کمی محسوس ہوتی ہے، اسی طرح غم و الم و ماتم کی رسومات نبھانا بھی معاشرتی زندگی کا حصہ ہے اور ایسے مواقع کا اگر اجتماعی طور پر سامنا نہ کیا جائے تو متاثرین کے لیئے حادثے و المیے سوانح روح بن جاتے ہیں اور ٹوٹ بھوٹ جاتے ہیں ۔ مگر خوشی یا شادی بیاہ وغیرہ اور موت مرگ کے سوگ و ثواب کے نام پر ایسی رسوم کو پروان چڑھاناکہ انھیں نبھانے سے انسان کی ذاتی و گھریلو زندگی عدم توازن یا بر بادی کا شکار ہو جائے کسی طور بھی پسند یدہ و لائق تحسین بات نہیں ہے۔
پاکستان میں مذہب اور معاشرت کے نام پر ایسے فضول رسم و رواج فروغ پا چکے ہیں جن پر بلا شبہ اربوں روپے ضائع ہو رہے ہیں اور بہت سی معاشرتی دشواریاں اور مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ شادی اگرچہ ایک اہم معاملہ یا فریضہ ہے مگر فضول رسم و رواج نے اسے ایسا پیچیدہ و گراں مسئلہ بنا دیا ہے کہ ایک عام آدمی اس سے نبٹنے کے بعد ساری زندگی اس معاشی بوجھ تلے رہتا ہے اور یوں اس خوشگوار فریضے کو ناقابل برداشت بوجھ بنا دیا گیا ہے۔شادی بیا کی تقریبات کا کئی کئی دن جاری رہنا، بے شمار مہمانوں کو مدعو کرنا اور بیش قیمت و بیش بہا زیورات و ملبوسات تیار کروانا ایسا رواج بن گئے ہیں کہ بعض لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اخلاقی جرات کے فقدان کے باعث با امرِ مجبوری ان کا انتظام و اہتمام کرتے ہیں اور نیتجتاً اپنی زندگی کا بیشتر حصہ شادی کے فرض کے قرض کی ادائیگی میں گزار دیتے ہیں۔صاحب ثروت لوگ اپنی حیثیت کی نمائش کے لیئے اپنی ؒ ڑکیوں کو بیش قیمت جہیز دیتے ہیں جنکی دیکھا دیکھی متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ بھی اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیئے مشکل میں پڑ کت جہیز کا باقاعدہ بندوبست کرتے ہیں۔اب تو بیش قیمت جہیز کا لین دین ایسا مستحکم رواج بن گیا ہے کہ شادی کے مواقع پر لڑکے والے لڑکی والوں کو مطلوبہ اشیاء کی باقاعدہ فہرست دیتے ہیں اور جو بے بس لوگ اپنی معاشی مجبوریوں کے باعث جہیز کا مطالبہ پورا نہیں کر سکے ان کی بیٹیاں تمام تر سلیقے، صلاحیت اور حسن و جمال کے باوجود والدین کے آنگوں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ بعض لوگ جہیز کے لین دین کے لیئے شرعی جواز بھی پیش کرتے ہیں مگر یہ جواز منصفانہ نہیں ہے اور کسی بھی جواز سے جہیز کی رسم کے مکروہ پن کو کم نہیں کیا جا سکتا ہے۔(بشکریہ ہمارے سماجی روےء) راجہ شاہ میر اختر

 

اپنا تبصرہ بھیجیں