68

پاکستان میں فارمیسی ایجوکیشن ( تعلیم ادویہ سازی) کا آغاز

پاکستان میں فارمیسی ایجوکیشن ( تعلیم ادویہ سازی) کا آغاز برصغیر کی تقسیم سے پہلے ہوا تھا۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور نے 1944 میں شعبہ فارماکولوجی میں 3 سالہ فارمیسی ڈگری کا آغاز کیا تھا۔
تقسیم کے بعد پنجاب یونیورسٹی نے علامہ اقبال کیمپس لاہور میں شعبہ فارمیسی قائم کیا۔ یہ پاکستان کا پہلا ادارہ تھا جو بنیادی طور پر فارمیسی کی تعلیم کے لیے وقف تھا۔


1964 میں جامعہ کراچی نے فارمیسی کی تعلیم کی ضرورت کے پیش نظر شعبہ فارمیسی قائم کیا۔ یہ پاکستان کا دوسرا اور صوبہ سندھ میں پہلا ادارہ تھا۔
گومل یونیورسٹی 1974 میں فارمیسی کی تعلیم شروع کرنے والی پاکستان کی تیسری اور خیبر پختونخواہ (اس وقت سرحد) میں پہلی یونیورسٹی ہے۔


1979 تک، فارمیسی کی ڈگری 3 سال تھی، پھر اسے 4 سال کی ڈگری میں تبدیل کر دیا گیا۔ فارمیسی کے شعبوں کی توسیع اور ادویات کی ترسیل کے نظام کی ضروریات کے ساتھ، 4 سال کی ڈگری کو 2004 میں5 سالہ ڈاکٹر آف فارمیسی (PharmD) کی ڈگری میں تبدیل کر دیا گیا۔
پاکستان میں فارمیسی ایجوکیشن یا شعبہ ادویہ سازی کی دیکھ بھال اور انتظام کےلئے حکومت پاکستان نے ایک کونسل بنایا ہے جسے فارمیسی کونسل آف پاکستان(PCP) کہا جاتا ہے۔
سنہ 2000 تک پاکستان میں صرف 10 یا 11 اداروں کو حکومت کی طرف شعبہ ادویہ سازی کی اجازت تھی۔
یہ تعداد آج بڑھ کے 202 تک پہنچ گئی۔


ان اداروں کی اعداد و شمار کی بات کی جائے تو PCP نے ان اداروں کو 2 حصوں میں تقسیم کیا ہے، ایک وہ جنکو ریکگنائزڈ ادارے کہتے ہیں جبکہ دوسروں کو صرف NOC دی ہے۔ 71 ادارے پہلی قسم کے ہیں اور 131 دوسری قسم کے ہیں۔
مکمل تفصیل نیچے ٹیبل میں بیان کیا گیا ہے۔


فارمیسی اداروں کا بڑھ جانا اگر ایک طرف خوش آئند ہے تو دوسری طرف کچھ تحفظات بھی ہیں۔ خوش آئند اس لیے کہ طلباء کو زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں کہ وہ صحت کے شعبے میں ڈگری لیے کر ملک اور معاشرے کی خدمت کرے۔ تحفظات اس لحاظ سے کہ تقریبا 15 ہزار طلباء سالانہ گریجویٹ ہوتے ہیں لیکن سرکاری ملازمت کے مواقع میسر نہیں جس کی وجہ سے فارمیسی گریجویٹ مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ مایوسی انفرادی طور پر ہے کیونکہ میری نقطہ نظر سے سرکاری ملازمت لازمی یا ضروری نہیں۔ اگر صحیح فہم اور سوچ کے ساتھ منصوبہ بندی کی جائے تو فارمیسی ایک ایسا شعبہ ہے کہ جس کو ہم بلا شبہ ملٹی ڈائمینشنل فیلڈ کہہ سکتے ہیں کیونکہ فارماسسٹ گریجویٹ ہونے کے بعد فارماسیوٹیکل انڈسٹریز، ھاسپٹل فارمیسی، ریٹل اور کمیونٹی فارمیسی، ڈریپ، ڈرگ انسپکٹر، ٹیچنگ، ریسرچ یا مارکیٹنگ میں سے کوئی بھی شعبہ سیلیکٹ کر سکتا ہے جہاں جاب گروتھ کے کافی مواقع میسر ہوتے ہیں۔
ایک عام مشاہدہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں گریجویٹ ہونے کے بعد زیادہ تر فارماسسٹ بیرون ممالک مثلا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر،کینڈا، امریکہ، ناروے، سویڈن اور کچھ افریقی ممالک نکل جاتے ہیں۔
فارمیسی کے ایک استاد کی حیثیت سے میرے کچھ تجاویز ہیں۔
ڈاکٹر اف فارمیسی (PharmD) اور ایم فل، پی ایچ ڈی سطح پر سائلبس/نصاب اور کورسز کی تجدید نہایت ضروری ہے۔ اس وقت جو کورسز پڑھانے جاتے ہیں وہ 2004 میں ترتیب دئے گئے ہیں (2012 اور 2016 معمولی ردبدل ہواہے)۔ 2 دہانی پرانے کورسز کسی بھی لحاظ سے آج کی ضروریات پورے نہیں کرسکتے۔ اسی طرح ریسرچ کو دیکھا جائے تو آج تک فارمیسی ریسرچ میں کوئی بریک تھرو ممکن نہیں ہوا۔


ھائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) اور PCP کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے دیکھا گیا ہے کہ کچھ مخصوص لوگ کبھی یہاں اور کبھی وہاں مل بیٹھ جاتے ہیں جس کو وہ کورسز ریویو کا نام دیتے ہیں۔ میرے حیال میں یہ ایک غلط طریقہ ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن(HEC) PCP کے توسط سے فارمیسی کے تمام اداروں کو خط لکھ کر ماہرین کی ٹیم تیار کریں۔ یہ ٹیم کسی مخصوص جگہ مل کر 5,4 مجالس کریں اور وقت کی ضرورت کے مطابق نصاب تیار کرے۔


ایک اور مسئلہ فارمیسی انٹرنشپ کا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ھاسپٹلز فارمیسی اور فارمسسٹ کی افادیت کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔ منسٹری اف ھیلتھ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ تمام ٹیچنگ ھاسپٹلز کو پابند کریں کہ وہ فارمیسی طلباء کو مناسب اور برابری کی بنیاد پر انڈر ٹریننگ ڈاکٹرز کی طرح سکھنے کے مواقع دیں۔ ڈریپ کو چاہیے کہ وہ فارماسیوٹیکل انڈسٹریز کو پابند کریں گہ انٹرنشپ کے دوران فارمیسی طلباء کو مشاہرہ دے۔
پی سی پی (PCP) کو چاہیے کہ وہ بلا ضرورت اور بلا سہولیات کے
ادارے رجسٹر نہ کریں۔
بغیر سہولیات کے اداروں کی بھرمار سے فارمیسی کا معیار گر جاتا ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں