پاکستان میں اداروں کی پرائیویٹائزیشن ایک متنازعہ موضوع ہے، خاص طور پر جب ہم پی آئی اے (پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز) کی مثال لیتے ہیں۔ یہ عمل معیشت میں اصلاحات لانے کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے، مگر اس کی حقیقت میں
کامیابی کے لیے کئی چیلنجز درپیش ہیں۔
پرائیویٹائزیشن کی تعریف کی جائے تو یہ حکومت کے زیر ملکیت اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا عمل ہے۔ بنیادی طور پر اس کا مقصد اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا، مالی مسائل کا حل تلاش کرنا اور عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانا ہے۔ تاہم، پاکستان میں اس عمل کا آغاز 1980 کی دہائی میں ہوا، جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں چند سرکاری اداروں کی نجکاری کی گئی۔
اس کے بعد، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے ادوار میں بھی پرائیویٹائزیشن کے مختلف مراحل دیکھے گئے لیکن یہ ہمیشہ ہی ایک متنازعہ عمل رہا۔
پی آئی اے کی صورت حال اس وقت خاصی خراب ہے۔ یہ ادارہ کئی سالوں سے خسارے میں جا رہا ہے اور مالی مشکلات کا شکار ہے۔ اس کی سروسز کے معیار میں بھی کافی کمی آئی ہے، جس نے صارفین کا اعتماد متاثر کیا ہے۔ پی آئی اے کی ناکامی کی کئی وجوہات ہیں،
جن میں انتظامی مسائل، مالی بے قاعدگیاں، اور مقابلے کی کمی شامل ہیں۔ انتظامی کمزوریاں اور سیاسی مداخلت نے اس کی کارکردگی کو متاثر کیا، جبکہ مالی خسارہ اس کی بقا کے لیے خطرہ بن گیا۔
حکومت کی کوششوں کی بات کریں تو پی آئی اے کی بہتری کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے، مگر ان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کی جانب سے غیر واضح حکمت عملی، سیاسی مداخلت، اور بدعنوانی کے مسائل نے اس ادارے کی حالت کو مزید بگاڑ دیا۔
ہر نئی حکومت نے اپنی مرضی کی پالیسیاں اپنائیں، جس کی وجہ سے استحکام پیدا نہ ہو سکا۔ بدعنوانی اور مالی بے ضابطگیوں نے بھی پی آئی اے کی حالت کو بگاڑ دیا، اور تحقیقات کے باوجود ان معاملات پر مؤثر کارروائی نہ کی گئی۔
پی آئی اے کی حالت کو بہتر کرنے کے لیے چند اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، حکومت کو ایک جامع اور طویل المدتی حکمت عملی اپنانی ہوگی جو پی آئی اے کی مالی حالت کو بہتر بنانے، اس کی کارکردگی کو بڑھانے، اور برانڈ کی تصویر کو درست کرنے میں مددگار ثابت ہو۔
اس کے ساتھ ہی حکومت کو مکمل پرائیویٹائزیشن کے بجائے نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے کام کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ اس طرح نجی شعبہ اپنی مہارت اور تجربات کو استعمال کرتے ہوئے پی آئی اے کو بہتر بنا سکتا ہے۔
انتظامی اصلاحات بھی ضروری ہیں۔ پی آئی اے کے اندرونی نظام کو بہتر بنانے کے لیے شفافیت کو بڑھانا، بھرتیوں اور ترقیوں میں شفافیت کا عمل شروع کرنا ہوگا۔
اس کے علاوہ، پی آئی اے کو مقابلے کی فضاء میں کام کرنے کے قابل بنانا ہوگا تاکہ وہ نجی ایئر لائنز کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔ اس کے لیے سروسز کی بہتری، قیمتوں میں کمی، اور صارفین کے تجربات کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ پاکستان میں اداروں کی پرائیویٹائزیشن، خاص طور پر پی آئی اے کی مثال، اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ محض نجی ملکیت میں منتقل کرنا مسائل کا حل نہیں ہے۔
ضروری ہے کہ ایک جامع حکمت عملی اپنائی جائے جو نہ صرف ادارے کی مالی حالت کو بہتر کرے بلکہ عوامی خدمات کی فراہمی کو بھی بہتر بنائے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں استحکام لائے، بدعنوانی کے خلاف مؤثر اقدامات
کرے، اور نجی شعبے کے ساتھ تعاون بڑھائے، تاکہ پی آئی اے جیسے ادارے کامیاب ہو سکیں اور ملکی معیشت کو مستحکم کر سکیں۔ یہ عمل نہ صرف پی آئی اے کے مستقبل کے لیے اہم ہے، بلکہ ملکی معیشت کے استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔