83

پانامہ کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

طاہر یاسین طاہر
بالآخر پانامہ کیس کی سماعت کئی مراحل سے ہوتی ہوئی مکمل ہو گئی ہے۔پانامہ کیس کے معاملے نے گذشتہ برس اپریل میں دنیا بھر میں اس وقت ہلچل مچا دی تھی جب  بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے آف شور مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔ عالمی میڈیا کے مطابق پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے)کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے۔موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفی کا مطالبہ کیا گیا اور بعدازاں اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ رکھا اور پھر رواں سال 20 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلی افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی)تشکیل دی تھی۔جے آئی ٹی کی تشکیل کے فیصلے پر حکمران جماعت نے مٹھائیاں تقسیم کیں اور یہ تاثر ابھارا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل اصل میں، شریف خاندان کے موقف کی ہی تائید ہے۔ اس کے حق میں یہ دلیل دی جاتی کہ وزیر اعظم نے کمیشن بنانے کی تجویز دی تھی،مگر اپوزیشن معاملے کو سپریم کورٹ لے گئی  اور وزیر اعظم کی تجویز کو نہ مانے،  یاد رہے کہ اس حوالے سیٹی او آرز پہ اتفاق رائے نہ ہو سکا تھا۔یہ بات بھی یاد رہے کہ وزیر اعظم صاحب نے پانامہ لیکس آنے کے بعد یکے بعد دیگرے قوم اور پارلیمان سے خطاب کیا،اور اپنے،اور خاندان کے دفاع میں دلائل دیے۔ان دلائل پہ پارلیمان اور میڈیا پر زبردست بحث ہوئی،اسی اثنا میں پاکستان تحریک انصاف آف شور کمپنیوں،لندن فلیٹس،اور دیگر مالی بے ضابطگیوں کی منی ٹریل کا مطالبہ لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئی۔اس کیس نے موجودہ مرحلے تک آنے میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔عدالت عظمی اور جے آئی ٹی مسلسل حکمران جماعت کے نشانے پر رہی۔جب جے آئی ٹی بنی اور اس میں وزیر اعظم اور وزیر اعلی شہباز شریف سمیت اہم شخصیات کی طلبی ہوئی تو حکمران جماعت اور شریف خاندان آتش زیر پا ہوئے،اورکئی لیگی رہنماؤں نے جارحانہ پریس کانفرنسز کیں۔نہال ہاشمی کی پریس  کانفرنس بطور مثال ذکر کی جا سکتی ہے، جس کی پاداش میں انھیں، سینیٹر شپ،اور پارٹی کی رکنیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ایک بات جس کا بہت تکرار ہوتا آ رہا ہے، وہ ہے سازش۔ لیگی رہنماؤں نے پانامہ کو سی پیک کے خلاف سازش کہا تو کبھی وزیر اعظم اور حکومت کے خلاف،مریم نواز جس دن جے آئی ٹی میں پیش ہوئیں، تو انھوں نے کہا کہ ڈرو اس وقت سے جب وزیر اعظم قوم کو سب کچھ بتا دیں۔وزیر اعظم تک یہی کہتے ہیں کہ ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے تو براہ راست اس سازش کا اشارہ عدلیہ اور فوج کی طرف سمجھا جاتا ہے۔ ایک مرحلے پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہمارے خلاف سازش بیرون ِ ملک سے ہو رہی ہے، جبکہ اس سازش کے کردار ملک کے اندر ہیں۔گذشتہ سے پیوستہ روز خواجہ آصف نے کہا کہ ہمارے خلاف فوج اور عدلیہ سازش میں شریک نہیں ہیں۔یوں اس کیس سے متعلقین کی ہیجانی اور اضطرابی کیفیت کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔پی ٹی آئی کے چیئرمین وزیر اعظم کے استعفے سے کم پہ راضی ہی نہیں، جبکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ مطالبہ وزیر اعظم کا استعفیٰ ہی ہے۔اس امر میں کلام نہیں کہ جس طرح وزیر اعظم صاحب اور ان کے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد پہ منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات لگے، اگر یہی الزامات ترقی یافتہ ملک کے کسی حکمران خاندان پہ لگتے تو وہ  خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیتے۔ہمارے ہاں البتہ رویے اور مزاج مختلف ہیں۔پانامہ کیس کی سماعت، بالخصوص  جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد اور گذشتہ روز وزیر اعظم صاحب کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا سے جس طرح معزز ججز صاحبان نے سوالات کیے،اس سے قانونی موشگافیوں میں پڑے بغیر یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حکمران خاندان اور جماعت کے لیے خیر کی خبر نہیں۔جس طرح وزیر اعظم صاحب دبئی کی ایک فرم کے ملازم نکلے، اور جس طرح منی ٹریل کے ثبوت پیش کرنے کے بجائے عدالت عظمی کو دیگر معاملات میں الجھانے کی کوشش کی جاتی رہی،اس سے متوقع فیصلے کو سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آنی چاہیے۔کیا فیصلہ آنے سے قبل وزیر اعظم اسمبلیاں توڑ کر عوام کی عدالت جانے کا فیصلہ کریں گے؟ وہی عوامی عدالت جس میں جانے کا وہ بہت ذکر کرتے ہیں۔امید ہے وہ ایسا نہیں کریں گے، البتہ حکمران جماعت میں جانشینی اور جماعت پہ کنٹرول کے لیے گروہ بندیاں اپنا اثر ضرور دکھائیں گی۔امید ہے ہفتہ عشرے میں محفوظ فیصلہ بھی آجائے گا اورسیاسی ہنگامہ آرائی کا یہ سلسلہ بھی اپنے اختتام کو یوں پہنچے گا کہ اس کے بطن سے ایک نیا سلسلہ پھوٹ کر جوان ہونے چل پڑے گا۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں