پارٹی کارکنوں کی ہتک ناقابل برداشت ثابت ہوئی ‘ ساجد جاوید

آصف شاہ‘اشفاق چوہدری‘ نمائندگا ن پنڈی پوسٹ

سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے بارے میں ایک مثل مشہور ہے کہ وہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں لیکن جلسے جلوسوں میں عوام کا دل رکھنے کے لیے انہیں ہلا شیری دیتے ہیں اور اسی طرح وہ اپنا کھیل جاری رکھتے ہیں ان میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی پلیٹ فارم میں عوام اور ان کے حقوق کی بات کرتے ہیں ان میں تحریک انصاف راولپنڈی کے ڈپٹی کوارڈینیٹر راجہ ساجد جاوید کچھ ایسا ہی جزبے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں ان کے ساتھ گزشتہ دنوں ایک نشست ہوئی تو انہوں نے تو انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ چھوڑنے کا اصل مسلہ کوئی ذاتی نہیں تھا ایک ورکر پارٹی کے لیے دن رات ایک کرتا ہے لیکن جب اس کی عزت اور مقام کی بات کی جائے تو اس پر توجہ نہیں دی جاتی بلکہ عوام کے سامنے اپنے آپ کو ببر شیر سمجھنے والے اسی عوام کے سامنے اپنے جس نے انہیں اس مقام پر پہنچایا ہوتاکا تیور بدلی ہو جاتا ہے میری بھی اسی بات پر چوہدری نثار علیخان سے مسلہ بنا تھا اندازہ کریں کہ جن لوگوں کی وجہ سے وہ آج اپنے آپ کو کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھ رہے ہیں ان لوگو ں کی عزت نفس کومجروع کیا جارہا ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ ان کو دگنی عزت واپس کریں لیکن بدقسمتی سے رہی سہی عزت بھی بچانا مشکل ہے اور اسی بنا پر پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی کہ بادشاہ سلامت کو ان کو وہی رعایا مبارک ہو جوان کو کامیاب کرواتی ہے اور پھر باتیں بھی سنتی ہے تحریک انصاف کیا پارٹی ورکر کو مقام دینے کے بارے میں انہوں نے کہاکہ ہر جگہ میں کمی ہوتی ہے اور یہ انسان کے انسان ہونے کی دلیل ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف اور عمران خان کا وژن ہی ایک شاندار پاکستان کی ضمانت ہے جو لوگ اس جماعت کو طرح طرح کے نام دے رہے تھے آج اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں اور انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ آنے والے دنوں میں یہ جماعت ایک ایسے پاکستان کو سامنے لائے گی جو آنے والی نسلوں کے لیے کرپشن سے پاک ہو گا وطن عزیز کی 70سالہ تاریخ میں تحریک انصاف کو ہی یہ اعزازحاصل ہے کہ اس نے کرپٹ لٹیروں کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے اور باری باری کی سیاست کرنے والوں میں ایک کھلبلی مچا دی ہے ترقیاتی کاموں میں ہر جگہ ایک عجیب افراتفری نظر آتی ہے اس کی بڑی وجہ جب آپ اپنا کام چھوڑ کر دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑائیں گے تو ایسا ہی ہو گا جب منتخب لیڈران کا کام اسمبلی میں بیٹھ کر قانون بنانے اور عوامی فلاح کے کاموں کے بجائے گلی محلے کی سیاست میں گھسیں گے تو پھر ایسا ہی ہو گا اور پھر مخصوص علاقوں کو نوازنا بھی ایک بڑا مسلہ ہے اب لگ بھگ دوسال ہونے کو ہیں بلدیاتی نمائندگاں کو منتخب ہوئے لیکن ان کو ایک سائیڈ لائن لگا دیا گیا ہے وہ بیچارے تو کام کروانے کو ترس رہے ہیں لیکن بادشاہ سلامت اپنی من مرضی اور اپنے کارخاصوں کے زریعہ سے کام کر وا رہے ہیں میں تو کہتا ہوں کہ اس حلقہ میں بلدیاتی الیکشن کروانا ہی نہیں چاہیے تھے کیونکہ ایک کونسلر سے لیکر چیئرمین تک کا کام تو بادشاہ سلامت خود کر رہے ہیں ،ہمارے بچوں کے لیے آج تک کیا اقدامات کیے گے نہ کوئی ہسپتال نہ کوئی کالج یونیورسٹی ہے اس علاقہ میں اور دعوے ترقی کے جب گلی نالی کی سیاست ایم این اے کرے گا تو حلقہ کی عوام ایسے ہی زلیل ہوگی این اے52میں تحریک انصاف دھڑوں میں تقسیم ہونے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے میرے سمیت کرنل اجمل صابر راجہ اور خان سرور بھی الیکشن لڑنے کے امیدوار ہیں اب یہ فیصلہ پارٹی کو کرنا ہے کہ وہ کس کو ٹکٹ دیتی ہے میں ایک نظریاتی کارکن ہوں اور رہونگا اگرمجھے ٹکٹ ملے یا نہ ملے لیکن میرا کام پارٹی کے لیے ہے اور کرتا رہونگا لیکن ایک بات کہنا چاہوں گا کہ جو بھی عوام کے سامنے جائے وہ ایک لیڈر کی صورت میں نہیں بلکہ ایک ملازم کی حثیت سے جائے کیونکہ منتخب نمائندے کو تنخواہ عوامی ٹیکسسز کے پیسے سے ملتی ہے اور جو شخص عوام کے پیسے سے اپنی تنخواہ لے وہ لیڈ ر نہیں ملازم ہوتا ہے ہمارے ہاں معاملات ہی الٹ ہیں منتخب ہونے کے بعد اپنے آپ کو تیس مار خان سمجھنے والوں کو یہ بات زہن میں رکھنی چاہیے کہ انہیں کل پھر عوام میں آنا ہے میرا زاتی کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے پارٹی کو ٹکٹ دینے کے لیے ایک طریقہ ہونا چاہیے کہ اس میں کم از کم 50% اس حلقہ کی عوامی رائے پارٹی ٹکٹ میں شامل ہو‘ تاکہ پتہ چل سکے کہ عوام کس کو پسند کرتی ہے لیکن یہاں ہمارے اوپر کسی بھی بندے کو ٹکٹ دیکر ٹھونس دیا جاتا ہے اور ٹکٹ کا فیصلہ عمران خان سمیت پارلیمانی بورڈ نے کرنا ہے این اے باون میں کنفیوزن کی بڑی وجہ شائید میرے دوستوں کی جانب سے ٹکٹوں کے حصول کے دعوے ہیں انہوں نے کہا کہ الیکشن میں حصہ لینے والے کو کبھی بھی پارٹی کا عہدیدار نہیں ہونا چاہیے اس کہ وجہ سے وہ ٹکٹ کے حصول میں اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے تحریک انصاف نے اتنے طویل عرصہ کے گند کو صاف کرناہے اور ایسی ریفارمز اور

اصلاحات لانی ہیں جوآنے والے کل کے لیے ایک مثال ہوگی

اپنا تبصرہ بھیجیں