ٹیچر محمد سیاب کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد

تحریر چوھدری محمد اشفاق
استاد بہت بلند مقام و مرتبے کا نام ہے وہ اپنے ہاتھوں سے بے شمار ایسے پودے لگاتے ہیں جو بعد میں تن آور درختوں کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اور اپنی چھاؤں سے دوسروں کیلیئے راحت کا باعث بنتے ہیں استاد ملک و قوم کیلیئے اصل معمار تب ثابت ہوتے ہیں جب ان کے ہاتھوں سے تیار ہونے والے شاگرد ملک کیلیئے کوئی کارنامے سر انجام دیتے ہیں ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں استاد جب اپنے شاگردوں کو کسی عہدے و مقام پر دیکھتے ہیں تو ان کو ایک روحانی سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے اس روحانی خوشی کو وہ اپنے لیئے اپنی محنت کا صلہ تصور کرتے ہیں اچھے اور مخلص استاد دوران سروس اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایسی یادیں باقی چھوڑ جاتے ہیں جو ان کے شاگردوں کے دلوں میں ہمیشہ کیلیئے زندہ اور ترو و تازہ رہتی ہیں ایسی ہی ایک مثال گورنمنٹ بوائز ہائی سکول ڈیرہ خالصہ سے بطور سینئر ٹیچرریٹائر ہونے والے استاد محمد سیاب کی ہے وہ 1982میں محکمہ تعلیم سے منسلک ہوئے اور پہلی تعیناتی گورنمنٹ ہائی سکول ڈیرہ خالصہ میں ہوئی اس کے بعد وہ 41سال مسلسل اسی سکول میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور ۹اکتوبر 2023کو اسی سکول سے ریٹائر ہوئے ہیں انہوں نے اپنی ساری عمر اپنی جوانی محکمہ تعلیم میں گزار دی ہے اور اپنی محنت سے ہزاروں کی تعداد میں شاگرد تیار کیئے ہیں استاد کیلیئے اپنے تمام شاگردوں کو یاد رکھنا ناممکن ہوتا ہے لیکن شاگرد اپنے استاد کو کبھی بھی بھلا نہیں سکتے ہیں وہ ان کے دلوں میں ہمیشہ کیلیئے گھر کر جاتے ہیں ان کے شاگرد آج بھی ان کی حسین یادوں کو اپنے گلے سے لگائے ہوئے ہیں وہ ان کیلیئے آج بھی دعا گو ہیں گو کہ وہ اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد محکمہ سے ریٹائر ہو گئے ہیں لیکن ان کے شاگرد ان کی خدمات کو ہمیشہ کیلیئے یاد رکھیں گئے گورنمنٹ ہائیر سیکینڈری سکول ڈیرہ خالصہ کے کونے کونے میں ان کی خدمات کے اثرات موجود رہیں گئے ان کی ریٹائر منٹ کے موقع پر ساتھی اساتذہ نے تو ان کے اعزاز میں پروقار تقریب کا انعقاد کیا ہے لیکن یہاں پر ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ان کے اعزاز میں ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کے 1994 کی کلاس کے شاگردوں نے بھی ایک عظیم الشان تقریب کا انعقاد کیا ہے جس کے نگران و منتظم اعلی شاہین صابر قادری تھے شاہین صابرقادری جن کا تعلق گاؤں ڈیرہ خالصہ سے ہے اور وہ پنجاب پولیس میں ملازم ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ سماجی کاموں کھیل کے میدان،غریبوں،یتیموں اور بیواؤں کی مدد اور اس طرح کے دیگر فلاحی کاموں کیلیئے ہر وقت پیش پیش رہتے ہیں انہوں نے 1994کی کلاس کے تمام طالبعلموں سے رابطے کیئے اور اپنے اس وقت کے ٹیچر محمد سیاب اور قاضی محمد اشتیاق کی خدمات کے اعتراف کیلیئے ایک تقریب کے انعقاد کا اظہار کیا جس پر تمام شاگردوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی آمادگی ظاہر کی جس کے نتیجے میں شاہ باغ کے ایک مقامی ہوٹل میں استاد محمد سیاب اور قاضی محمد اشتیاق کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا اس دوران تمام شاگردوں نے خود کو خیالی طور پر 1994کی کلاس میں بیٹھا تصور کیا اور اپنے محسن استاد محمد سیاب سے بھی گزارش کی کہ وہ بھی خود کو ماضی میں لے جائیں اس وقت سب پر شاگردوں پر ایک روحانی کیفیت طاری ہو گئی اس دوراں انہوں نے اپنے اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا ہے اور اپنے استاد سے مکالمے بھی کیئے ہیں تقریب کو اس احسن طریقے سے آرگنائز کیا گیا ہے کہ تمام شرکاء خود کو عملی طور پر انیس سوچرانوے میں تصور کرنے پر مجبور ہو گئے اس دوران شاگردوں کی جانب سے طنز و مزاح کا مظاہرہ بھی کیا گیا ہے اور ایک دوسرے سے خوش گپیاں بھی لگائی گئی ہیں اور ماضی کے قصے دہرائے گئے ہیں جس سے محفل میں ایک انجانی خوشی بھی چھائی رہی ہے استاد سیاب نے کلاس لگائی جس کے باعث سارے شاگرد استاد وں سمیت ماضی کے جھروکوں میں چلے گئے اور اپنے بچپن کی یادوں میں کھو گئے تمام شاگردوں نے اپنے دونوں اساتذہ کو پھولوں کے گلدستے و تحائف پیش کیئے ہیں اور ان کو اپنے جذباتی کلمات سے نوازا ہے مذکورہ دونوں اساتذہ نے اپنی خدمات کے دوران کوئی کمی کوتاہی اپنے فرائض کی ادائیگی میں آڑے نہیں آنے دی ہے انہوں نے تعلیم فراہم کرنے کو ترجیح دی ہے ان کے ہاتھوں سے ہزاروں کی تعداد میں لگائے گئے پودے آک تن آور درخت بن چکے ہیں اور زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اپنی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں اور ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں قابل قدر اساتذہ کے اعزاز میں جو تقریب منعقد کی گئی ہے وہ ان کے خدمات کے سامنے کوئی بھی حثیت نہیں رکھتی ہے لیکن اس سے یہ بات بلکل واضح ہو گئی ہے کہ شاگرد اپنے اساتذہ کی خدمات کو کبھی بھی بھلا نہیں سکتے ہیں آج اس کلاس کو فارغ ہوئے ستائیس سال گزر چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے محسن اساتذہ کی یادوں کو اپنے دلوں سے لگائے رکھا ہے جن کا ظہار انہوں نے ستائیس سال بعد بھی کیا ہے تقریب کے آخر میں بہترین عشائیے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا یہ پروقار تقریب کئی گھنٹوں پر محیط رہی ہے اس موقع پر شاگرد راجہ شاہین صابر،چوھدری محمد اشرف،محمد نادر خان،محمد وحید اعوان،محمد رب نواز،محمد عامر،محمد زعفران،ضیاء الحسن،محمد منیر،محمد الیاس،حبیب الرحمن،محمد آصف،محمد ظہیر،قاضی محمد عتیق،محمد گلفراز،محمد نعیم،شہزاد قریشی،شامل تھے جبکہ دو شاگرد محمد نعیم شہزاد قریشی، سبقت محمود جو بیرون ملک ہیں نے ویڈیو لنک کے زریعے تقریب میں شمولی اختیار کی ہے تمام شاگردوں نے اپنے اساتذہ کی طرف سے ان کیلیئے وقت نکالنے پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے اور ان کی صحت و سلامتی کیلیئے دعا کی ہے خوش قسمتی سے راقم کا شمار بھی ان دونوں مذکورہ اساتذہ کے شاگردوں میں ہوتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں