ٹیپو سلطان

14 فروری سنہ 1799 کو جنرل جارج ہیرس کی رہنمائی میں 21000 فوجیوں نے ویلور سے میسور کی جانب کوچ کیا۔ 20 مارچ کو امبر کے نزدیک 16000 فوجیوں کا ایک دستہ ان کے ساتھ آ ملا۔
اس میں کنور کے قریب جنرل سٹوئرٹ کی کمان میں 6420 فوجیوں کا دستہ بھی شامل ہو گیا تھا۔ ان سبھی نے مل کر ٹیپو سلطان کے سرنگا پٹم کے قلعے پر چڑھائی کر دی تھی۔ یہ وہی ٹیپو سلطان تھے جن کی آدھی سلطلنت پر چھ برس قبل انگریزوں نے قبضہ کر لیا تھا۔آہستہ آہستہ انھوں نے سرنگا پٹم کے قلعے کو گھیر لیا اور تین مئی 1799 کو توپوں سے حملہ کر کے اس کی صدر دیوار میں سراخ کر دیا۔حالانکہ سوراخ زیادہ بڑا نہیں تھا، تو بھی جارج ہیرِس نے اپنے فوجیوں کو اس کے ذریعہ قلعے کے اندر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اصل میں ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔تین مئی کی رات تقریباً 5000 فوجی جن میں قریب 3000 انگریز تھے خندقوں میں چھپ گئے تاکہ ٹیپو کی فوج کو ان کی سرگرمی کا پتا نا لگے۔ جیسے ہی حملے کا وقت نزدیک آیا ٹیپو سلطان سے غداری کرنے والے شخص میر صادق نے فوجیوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے بلایا۔ٹیپو کے ایک کمانڈر ندیم نے تنخواہ کا مسئلہ کھڑا کر دیا تھا۔ اس لیے دیوار کے سراخ کے پاس تعینات فوجی بھی اس کے پیچھے چل دیے۔ اسی وقت انگریزوں نے پیچھے سے حملہ بول دیا۔اس درمیان ٹیپو کے ایک بہت وفادار کمانڈر سعید غفار انگریزوں کی توپ کے گولے سے ہلاک ہو گئے۔ جیسے ہی غفار کی موت ہوئی، قلعے سے غدار فوجیوں نے انگریزوں کی جناب سفید رومال ہلانے شروع کر دیے۔یہ پہلے سے طے تھا کہ جب ایسا کیا جائے گا تو انگریز فوج قلعے پر حملہ بول دے گی۔ جیسے ہی سگنل ملا انگریز فوج نے دریا کے کنارے کی جانب بڑھنا شروع کر دیا جو وہاں سے صرف سو گز کے فاصلے پر تھا۔حالانکہ انگریزوں کی آگے بڑھتی ہوئے فوج کو قلعے سے بڑی آسانی سے توپوں کا ہدف بنایا جا سکتا تھا، پھر بھی خندقوں سے نکل کر انگریز فوجی محض سات منٹ کے اندر قلعے کی دیوار کے سراخ سے داخل ہو کر برطانوی جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہو گئے۔ قبضہ حاصل کرنے کے بعد بائیں جانب بڑھنے والی فوج کو ٹیپو سلطان کی جانب سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیپو کی فوج کے ساتھ دست بدست مقابلے میں اس دستے کی رہنمائی کرنے والے کرنل ڈنلپ کی کلائی پر تلوار سے گہرا زخم لگا۔ اس کے بعد دستے کو آگے بڑھنے سے روکنے میں ٹیپو کے فوجی کامیاب رہے۔ٹیپو سلطان اپنی فوج کی ہمت بندھانے خود جنگ میں شامل ہو چکے تھے۔ڈنلپ کی جگہ لیفٹننٹ فارکیوہار نے لی۔ لیکن وہ بھی جلد ہلاک ہو گئے۔ چار مئی کی صبح ٹیپو نے اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر قلعے کی دیوار میں ہونے والے سراخ کا معائنہ کیا اور اس کی مرمت کا حکم دیا۔ محل میں واپس لوٹ کر رات کا کھانا کھایا۔کھانا شروع ہی کیا تھا کہ انھیں اپنے کمانڈر سعید غفار کے ہلاکت سے متعلق خبر ملی۔ غفار قلعے کے مغربی سرے کی حفاظت کے لیے تعینات فوج کی قیادت کر رہے تھے۔ٹیپو یہ خبر سنتے ہی کھانا چھوڑ کر اٹھ گئے اور گھوڑے پر سوار ہو کر اس جگہ کی جانب نکل پڑے جہاں دیوار میں سراخ ہوا تھا۔ لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی انگریزوں نے وہاں اپنا جھنڈا لہرا دیا تھا اور قلعے کے دوسرے علاقوں کی جانب بڑھنا شروع ہو چکے تھے۔اس جنگ میں ٹیپو نے زیادہ تر لڑائی عام فوجیوں کی طرح پیدل ہی لڑی۔ لیکن جب ان کے فوجیوں کی ہمت ٹوٹنے لگی تو وہ گھوڑے پر سوار ہو کر ان کی ہمت بڑھانے کی کوشش کرنے لگے۔ اگر ٹیپو چاہتے تو جنگ کے میدان سے بھاگ سکتے تھے۔ اس وقت قلعے کے کمانڈر میر ندیم قلعے کے گیٹ کی
چھت پر کھڑے تھے لیکن انھوں نے اپنے سلطان کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ٹیپو تب تک زخمی ہو چکے تھے ٹیپو قلعے کے اندرونی گیٹ کی جانب بڑھے تو ان کے بائیں سینے سے ایک گولی نکل گئی۔ ان کا گھوڑا بھی مارا گیا۔ ان کے ساتھیوں نے انھیں ڈولی پر بٹھا کر جنگ کے میدان سے باہر لے جانے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ کیوں کہ تب تک وہاں لاشوں کا ڈھیر لگ چکا تھا۔اس وقت ان کے باڈی گارڈ راجا خان نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ انگریزوں کو بتا دیں لیکن ٹیپو کو یہ نامنظور تھا۔ انھوں نے انگریزوں کے ہاتھوں قید کیے جانے کے بجائے موت کے راستے کا انتخاب کیا۔ تبھی کچھ انگریز فوجی قلعے کے اندرونی گیٹ میں داخل ہوئے۔ان میں سے ایک نے ٹیپو کی تلوار کی بیلٹ چھیننے کی کوشش کی۔ تب تک ٹیپو کا کافی خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ تقریباً بے ہوش ہو گئے تھے۔ تب بھی انھوں نے اپنی تلوار سے اس فوجی پر حملہ کیا۔پھر انھوں نے اسی تلوار سے ایک اور انگریز فوجی کے سر پر وار کیا۔ اسی درمیان ایک اور انگریز فوجی نے ٹیپو پر حملہ کر دیا۔ وہ ان سے جواہرات جڑی تلوار چھیننا چاہتا تھا۔ اس وقت وہ یہ نہیں دیکھ سکے کہ ان پر کس نے تلوار چلائی تھی۔انگریز نہیں جانتے تھے کہ ٹیپو سلطان کی موت ہو چکی ہے۔ وہ انھیں ڈھونڈنے محل کے اندر گئے۔ پتا چلا کہ ٹیپو وہاں نہیں ہیں۔ ٹیپو کا ایک سپہ سالار انھیں اس مقام پر لے گیا جہاں ٹیپو گرے تھے۔ وہاں ہر طرح لاشیں اور زخمی فوجی پڑے ہوئے تھے۔مشعل کی روشنی میں ٹیپو سلطان کی ڈولی نظر آئی اس کے نیچے ٹیپو کے باڈی گارڈ راجا خان زخمی حالت میں پڑے تھے۔ انھوں نے اس طرف اشارہ کیا جہاں ٹیپو گرے تھے۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ان کا جسم اتنا گرم تھا کہ ایک لمحے کے لیے مجھے اور کرنل ویلیزلی کو ایسا لگا کہ کہیں وہ زندہ تو نہیں۔ لیکن جب ہم نے ان کی نبض دیکھی اور دل پر ہاتھ رکھا تو ہمارا شک دور ہوا۔ ان کے جسم پر تین اور ایک زخم ماتھے پر تھا۔ایک گولی ان کے داہنے کان سے داخل ہو کر بائیں گال میں دھنس گئی تھی۔جنرل بیئرڈ نے ٹیپو کی لاش کو انھیں کی ڈولی میں رکھنے کا حکم دیا۔ دربار کو پیغام بھیجا گیا کہ ٹیپو سلطان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کی لاش پوری رات ان کے دربار میں رکھی گئی اگلے دن شام کو محل سے ٹیپو سلطان کا جنازہ نکلا۔ ان کے جنازے کو ان کے ذاتی ملازمین نے اٹھایا ہوا تھا۔ ان کے ساتھ انگریزوں کی چار کمپنیاں بھی چل رہی تھیں۔اگلے دن شام کو محل سے ٹیپو سلطان کا جنازہ نکلا۔ ان کے جنازے کو ان کے ذاتی ملازمین نے اٹھایا ہوا تھا۔ ان کے ساتھ انگریزوں کی چار کمپنیاں بھی چل رہی تھیں۔ جن سڑکوں سے جنازہ گزرا، ان کے دونوں طرف بھیڑ تھے۔ لوگ زمین پر لیٹ کر جنازے کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے۔ لوگ زور زور سے رو رہے تھے۔ انھیں لال باغ میں ان کے والد حیدر علی کی قبر کے بغل میں دفنایا گیا۔ٹیپو سلطان کا ایک قول مشہور ہے کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتری ہے جنگ کے خاتمہ پر ٹیپو سلطا ن کے زیادہ تر خاندان کو کمپنی بہادر نے قتل کروا دیا اور میسور پر ایک کٹھ پتلی خاندان کو راج دیدیا گیا انگریز جنرل ہارس کو جیسے ہی ٹیپو سلطان کی شہادت کی خبر ملی تو وہ ٹیپو سلطان کی نعش کو دیکھنے آیا اور فرش خوشی سے چیخ اٹھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں