ٹھگ

عبدالجبار چوہدری/ٹھگ کا مطلب ہے لٹیرا‘ جعل ساز‘چور ایک وقت تھا جب چوروں کا گروہ ایک‘ ڈاکوؤں کا گینگ اپنا جبکہ ٹھگوں کا ٹولہ الگ ہوتا تھا۔چوروں‘ ڈاکوؤں سے بچنا اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ موقع پا کر کام کر جاتے ہیں ان کی اپنی کوتاہی یا بے احتیاطی پھنسا دیتی ہے ٹھگ دن کی روشنی میں‘ چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے ہمدردی اور اعتماد کا تعلق بنا کر لوٹتے ہیں اپنی صلاحیت کا استعمال اس مہارت سے کرتے ہیں کہ نقصان اٹھانے والا لٹنے والا اپنے آپ کو قصوروار ٹھہراتا ہے اور کف افسوس ملتا رہتا ہے ٹھگ ایک منصوبہ بناتا ہے شکاری کی طرح تن تنہا نکل پڑتا ہے ایسے طریقے سے ذہنی طور پر دوسرے کو یرغمال بناتا ہے کہ بالآخر ایک عقل مند‘ باشعور شخص اس پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی جمع پونجی حوالے کر دیتا ہے ٹھگ اپنی واردات‘ کارروائی کا نام و نشان کبھی نہیں چھوڑتا اس کو پکڑنا چا ہو بھی تو ثبوت ہاتھ نہیں ہوتا۔ٹھگ کا کام منافع کمانا بھی ہوتا ہے کم قیمت مال کو کئی گنا زیادہ پر فروخت کرنا‘ مہنگے داموں بیچنا اور کم داموں خرید لینا‘ فریب سے دوسرے کے مال کو لے لینا اس کی فنکاری ہوتی ہے بظاہر اس کو پہچان نہیں سکتے صرف نقصان اٹھانے کی صورت میں ہی اس کی پہچان ہو تی ہے بعض و اوقات اتنا بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے کہ عمر بھر وہ پورا نہیں ہو سکتا۔سالہا سال سے ہمارے ملک میں تجارت‘ لین دین اور کرنسی کے منتقل کرنے کے قوانین نہ ہونے کے برابر تھے معیشت دستاویزی شکل کے بجائے روایتی طریقوں سے چل رہی تھی جب تک روپیہ پیسہ ملک کے اندر ہی استعمال ہوتا رہا تو یہ زیادہ تشویش کا باعث نہیں تھا جب اس قیمتی زر مبادلہ کا بیرون ملک منتقلی کا عمل شروع ہوا اور اس سے دیگر ممالک میں جائیدادیں خریدی گئیں تو تب پتہ چلا کہ یہ دولت کو ہمارے ملک سے یہاں تک پہنچی ہے اس کو لانے والے نہ ان پڑھ ہیں اور نہ ہی بیوقوف بلکہ اتنے چالاک ہیں کہ قوانین کے لچکدار ہونے او ر سقم کی وجہ سے انھوں نے اتنی بڑی رقوم کو بیرون ملک منتقل کر لیا ہے اس کے علاوہ حکمران طبقہ سے تعلق کی وجہ سے دیگر غیرقانونی ذرائع کا بھی استعمال کیا ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے ہمیں اس وجہ سے مدد دینا بند کر دی کہ بجائے غربت کے خاتمے کہ یہ دولت گھوم کر پھر ہمارے پاس ہی آجاتی ہے یہاں تک کہ شدت پسندوں تک یہی رقوم پہنچی ہیں اور وہ اپنے نام نہاد نظریات کے پر چارکے لیے اس کو استعمال کرتے اور کمزور حکومتوں کے خلاف مسلح کاروائیاں بھی کرتے رہے ہیں جس سے دنیا کا امن تہہ و بالا ہو کر رہ گیا اس آکاس بیل کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے سب ممالک نے سر جوڑ رکھے ہیں اور اب ہر جگہ دستاویزی صورت میں لین دین کا رواج شروع ہو چکا ہے اب تک جو لوگ روایتی طریقوں سے اربوں‘ کھربوں بلکہ ٹریلین میں فائدہ اٹھاچکے ہیں ان پر چور‘ڈاکو کے آواز ے کسے جارہے ہیں کوئی دولت کے ذرائع کا پوچھنے پر انتقام کا شور مچا رہا ہے کوئی اسے اپنے اوپر ظلم سے تعبیر کر رہا ہے حالانکہ یہ ٹھگی تھی۔ٹھگ اپنا پتہ نہیں بتاتا اور نہ ثبوت چھوڑتا ہے ملک سے حاصل دولت ملک کے اندراستعمال ہو اس کا دستاویزی ریکارڈ ہو تو ادھر ادھر بھاگنے کی ہر گز ضرور ت نہیں رہتی موجودہ کرونا کی وبا کے دوران یورپ کے ایک ملک اٹلی میں لوگوں نے کرنسی نوٹوں کو سڑکوں پر بکھیر دیا کہ ہم جب زندہ نہیں رہ سکتے تو ان کاغذ کے نوٹوں کی ہمیں کیا ضرورت ہے بہرحال جلد یا بدیر ہمارے ملک میں بھی دولت کی ریل پیل ہو گی کب تک ان نوٹوں کے انباروں کو سینے سے لوگ لگا کر رکھیں گے قوانین کی تشکیل پا جانے کے بعد چیخیں‘ شور اور بلند ہو گا ملکی دولت ملک کے اندر ہی استعمال ہو تو یہاں خوشحالی آئے اور لوگوں کو علاج کی سہولتیں میسر آئیں‘ امن ہو زندگی اچھے طریقے سے گزرے اگر ٹھگ اس کو لوٹ کرملکی سرحدوں سے باہر لے جائیں تو پھر کیسے یہاں حالات بدلیں غربت دور ہو اور روزگار ملے۔ٹھگوں کے رستے مسدود کرنے سے ہی یہ ممکن ہو گا۔جتنا انتشار سیاسی افق پر دکھائی دے رہا ہے اس کی بنیاد یہی ہے کہ دولت کے غیر قانونی منتقلی کے رستے بند ہو جائیں گے۔پاکستانی حکمران اپنے طور تھوڑے ہی اس پر تیار ہوئے دنیا کے ممالک کے مطالبے اور اصرار پر کام شروع کیا اورمنطقی انجام تک ضرور پہنچے گا،معیشت لرزتی‘ کانپتی اور ہچکولے کھاتی رہے گی آخرکار سنبھل جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں