ویلج کونسل بشندوٹ کی سیاسی صورتحال

ملکی سیاست میں اس وقت ہرطرف کھلبلی مچی ہوئی ہے جبکہ سیاسی حالات بتدریج تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں تاہم اسکے برعکس دوسری طرف مقامی سطح پربلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے عوام میں کافی جوش وخروش پایاجاتا ہے بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن تحریک انصاف اورتحریک لبیک پاکستان کے جانثار کارکنان بلدیاتی انتخابات میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے اور سیاسی مخالفین پر برتری جتانے کیلیے خاصے متحرک ہیں جبکہ یوسی بشندوٹ کی بلدیات کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک آزاد پینل کی تشکیل پر آزادخیال متحارب گروپوں کے مابین گفت وشنید کاحتمی مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اور ہفتہ کے دن باضابطہ طور پر آزاد پینل منظرعام پر آگیا ہے اس آزاد پینل کی تشکیل میں سابق نائب چیرمین یوسی بشندوٹ راجہ مناظراقبال جنجوعہ نفیس اختر اور چوہدری محمد اسرار بلال کا مرکزی کردار ہے اس پینل میں سابق نائب ناظم راجہ مناظراقبال جنجوعہ بطور امیدوار یوسی چیئرمین اور چوہدری اسرار بلال نائب چیئرمین کے امیدوار ہونگے جبکہ دیگر کونسلران کی نامزدگی کا اعلان بھی جلد متوقع ہے اس آزاد پینل کی تشکیل کو مقامی سیاست پرگہری نظر رکھنے والے افراد کیجانب سے ایک مضبوط سیاسی پینل کے طور پردیکھا جارہا ہے اس آزاد گروپ کی تشکیل مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے ووٹ بینک کو متاثر کرسکتا ہے مسلم لیگ ن کے سابق یوسی چیئرمین جو اپنے سابقہ دوراقتدار میں عوامی فلاحی منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے عوام میں خاصی شہرت رکھتے ہیں وہ ان تمام مزاحمتی تبدیلیوں کے باوجود انتخابات میں اپنی واضح کامیابی کیلیے خاصے پرعزم نظرآتے ہیں تاہم مقامی سیاست میں موجودہ ہلچل کے تناظر میں اگر آزاد گروپ کو دونوں بڑی پارٹیوں کے ناراض گروپوں کی حمایت مل جاتی ہے اور دوسری طرف تحریک لبیک کے امیدوار بڑی تعداد میں مذہبی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں توپھر بلدیاتی انتخابات کے نتائج سابقہ ادوار کی نسبت کہیں زیادہ حیران کن ہونگے ہیں دوسری طرف نوجوانوں میں ابھرتی ہوئی مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے بھی دوسری پارٹیوں کی نسبت پہل کرتے ہوئے یوسی بشندوٹ سے چیئرمین شپ کیلیے محمد سجادحسین رضوی کو باضابطہ طور پر اپنا متفقہ امیدوار نامزد کردیا ہے جبکہ نائب چیئرمین کیلیے علمی وسیاسی شخصیت راجہ محمد اخلاق کیانی کو میدان میں اتارنے کیلیے تحریک لبیک کی شوری کمیٹی میں غوروخوص جاری ہے یادرہے راجہ محمد اخلاق کیانی سابق چیئرمین زکوۃ کمیٹی بھی رہ چکے اورسیاسی حلقوں میں انہیں ایک اعتدال پسند سیاسی ومذہبی شخصیت کے طور پر دیکھا جارہا ہے تحریک لبیک کے بطور امیدوار چیئرمین محمد سجاد حسین رضوی کا تعلق یوسی بشندوٹ کے گاوں پرانا جٹال سے ہے جوجنجوعہ راجپوت برادری سے تعلق رکھتے ہیں یادرہے 2018سے قبل مسلم لیگ نون کیساتھ انکے خاندان اور برادری کی بڑی گہری سیاسی وابستگی تھی تاہم اب پوری برادری تحریک لبیک کے سیاسی کارواں میں شامل ہوگئی ہیں پنڈی پوسٹ سے اظہار خیال کرتے ہوئے سجاد حسین رضوی کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک پاکستان نے جو سیاسی ونگ تشکیل دیا ہے اسکا اہم مقصد آئینی طریقہ کار کی حدود میں رہ کر ملک کے اندر نفاذ نظام مصطفیﷺ کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے انہوں نے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے یوسی سطح کی سیاست میں عوامی حمایت کی کامیابی سیاقتدار میں آ کر غریبوں اور احساس محرومی کا شکار طبقات کی ضروریات زندگی میں بہتری لانے کیلیے اقدامات کیے جائیں گے اور ہر وارڈ میں اس مقصد کیلیے فلاحی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جو مسائل کی نشاندہی کیلیے عوام سے مسلسل رابطے میں رہیں گی انکا مزید کہنا تھا کہ تحریک لبیک پاکستان کی یوسی بشندوٹ کے اندر پہلے ہی15رکنی مرکزی باڈی کی تشکیل عمل میں لائی جا چکی ہے اور اسی طرح ملک بھرتحصیل اور ضلعی سطح پر ہر وارڈ میں مرکزی باڈی موجود ہے انہوں نے پرعزم انداز میں اپنے اس موقف کو دوہرایا کہ ہم ایک مضبوط سیاسی ڈھانچہ بناکر مذہبی حلقوں کی سپورٹ اور عوامی حمایت سے اپنے سیاسی مخالفین کو واضح برتری سے شکست دے کر انکو سیاسی میدان سے بھاگنے پرمجبور کردیں گے کیونکہ ہمارا بیانیہ حقیقت پر مببنی ہے اور ہم حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست میں نفاذ نظام اسلام کے کیلیے کوشاں ہیں جس میں ہمیں ضرور کامیابی ملے گی۔یاد رہے حالیہ کچھ عرصے میں تحریک لبیک نے ہر یوسی میں جگہ جگہ رکنیت سازی کے کیمپ لگائے تھے اور بالخصوص یوسی بشندوٹ میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس رکنیت سازی کے زریعے تحریک لبیک میں شمولیت اختیار کرلی ہے جس سے ماضی کی نسبت اس مرتبہ اس مذہبی جماعت کے ووٹ بینک میں خاطرخواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ تحریک انصاف کی حکومت کی حالیہ کارگردگی سے عوام نالاں ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے منحرف گروپس بھی تحریک لبیک کی طرف دیکھ رہے ہیں جس سے بظاہرایسا لگتا ہے کہ ہواوں کا رخ بدلنے والا ہے۔موجودہ ملکی سیاسی حالات کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن جماعتوں کیطرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے اگر بالفرض حکومت تحریک عدم اعتماد کی صورت میں گر جاتی ہے تو پھر بلدیاتی انتخابات طویل مدت تک التوا کا شکار ہو سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں