ووٹ کے صحیح استعمال میں ملک و قوم کی ترقی کا راز مضمر ہے

ضیاء الرحمن ضیاء/جمہوری نظام میں ووٹ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ایک ایک ووٹ بہت زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور ایک ووٹ ہی قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ جمہوری نظام میں تو فیصلے فقط اکثریت کی بنا پر ہوتے ہیں۔ یہاں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ اس لیے گنتی میں جس کا پلہ بھاری ہو گیا وہی قوم پر مسلط ہو جاتا ہے۔ کسی کی اہلیت، قابلیت، دیانت اور صداقت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی فقط گنتی میں ووٹ زیادہ ہو جائیں تو انتخابات کے نتائج میں فرق آجاتا ہے لہٰذا ایک ووٹ کی ہیر پھر پورے انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔ اس لیے اپنے ووٹ کا درست استعمال قوم کے مستقبل کے لیے بہت ضروری بلکہ شرعی لحاظ سے بھی واجب ہے۔ ووٹ کی شرعی حیثیت کو دیکھا جائے تو علماء کرام فرماتے ہیں کہ اس کی شرعی حیثت سفارش و شہادت کی سی ہے۔ یعنی ووٹ دینا سفارش کرنا ہے کہ میں جس امیدوار کو ووٹ دے رہا ہوں یہ میرے نزدیک اس قابل ہے کہ اسے عوامی نمائندہ بنا کر اسمبلی میں بھیجا جا سکتا ہے اور یہ اہل اور قابل شخص ہے جو عوام کی نمائندگی کا حق ادا کر سکتا ہے۔ یا ووٹ کی حیثیت شہادت اور گواہی کی ہے یعنی ووٹ دینے والا اپنے امیدوار کے بارے میں یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص جسے میں ووٹ دے رہا ہوں اس میں قانون سازی کی صلاحیتیں موجود ہیں، یہ عوامی مسائل حل کرنے اور قوم کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں سفارش اور گواہی کے شرعی احکامات اور وعدے و وعیدیں نافذ ہوں گیں۔ یعنی آیات قرآنی اور احادیث میں درست موقع پر سفارش اور سچی گواہی کے جو فضائل بیان ہوئے ہیں وہ درست ووٹ دینے والے کو حاصل ہوں گے جبکہ غلط جگہ ووٹ دینے والا نااہل کے حق میں سفارش اور جھوٹی گواہی کے بارے میں جو وعیدیں ذکر ہوئی ہیں، ان کا مستحق ٹھہرے گا۔ اس لیے ووٹ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر اور چھان پھٹک کر کرنا چاہیے کہ کہیں ایسے شخص کو ووٹ نہ دے بیٹھیں جو بعد میں ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ثابت ہو اور ہم اس کے تمام غلط کاموں میں برابر کے گناہ گار ٹھہریں۔ ووٹ دینے کے لیے ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر سوچنا چاہیے۔ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو بڑے بڑے قومی مفادات پر ترجیح دینے سے معاشرے میں تباہی آتی ہے۔ ہم آج ایسے ہی کرتے ہیں کہ اپنے نہایت معمولی کاموں کے لیے نااہل لوگوں سے ووٹ کا وعدہ کر بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سے ملک پر ہمیشہ سے نااہل لوگ مسلط ہوتے آئے ہیں۔ تعلیم یافتہ اور سیاسی شعور میں پختگی رکھنے والے معاشروں میں ووٹ دینے کے معیار مختلف ہوتے ہیں۔ وہ اس شخص کو ووٹ دیتے ہیں جو ان کے ملک و قوم کے مستقبل کے لیے بہترین فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو جسے پالیسی سازی کاعلم ہو، جو سیاسی شعور رکھتا ہو اور موجودہ حالات پر اس کی گہری نظرہو۔ لیکن گلیاں نالیاں پختہ کرنے پر ووٹ دینے کی وبا تو پورے ملک میں عام ہے۔ انتخابی امیدواروں کا اصل کام قانون سازی ہوتا ہے کہ وہ انتخابات میں کامیابی کے بعد ملک کے بہتر مستقبل کے لیے فیصلے کریں گے۔ نظام کو درست کرنے کے لیے قانون سازی کریں گے اور ملک و قوم کی ترقی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں قوم کی ترقی و خوشحالی کے ضامن بنیں گے۔ مگر ہم ایک گلی پختہ کرنے یا پختہ کرنے کے فقط وعدے پر ہی نااہل لوگوں کو ووٹ دے دیتے ہیں ہم ان کی صلاحیتوں کو نہیں دیکھتے، ہم معمولی معمولی وعدوں پر نااہل، جاہل اور گنوار امیدواروں کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔ جو ایک گلی پختہ کر کے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر دوبارہ عوام کو دکھائی نہیں دیتے اور عوام بھی ان سے کسی حق کا مطالبہ نہیں کر سکتے اس لیے کہ انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق گلی یا نالی بنوا دی ہوتی ہے، اب ان پر عوام کی کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہ جاتی۔ ایک گلی بنوا کر بھی یہ عوام پر احسان کرتے ہیں جو انہیں نہیں بھی چاہتے وہ اپنی گلی پختہ ہوتے دیکھتے ہیں تو سر جھکا کر شرمندگی کے ساتھ ان کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں۔ اور یہ امیدوار گلی پختہ کر کے عوام پر احسان جتا رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم نظام میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں امیدواروں کو جانچنے کے پیمانے بدلنے ہوں گے۔ اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل اور دیانتدار امیدواروں کو ووٹ دیں گے تو ہمارا کوئی کام بھی نہیں رکے گا۔ دیانتدار امیدوار ہماری تمام ضروریات کا خیال رکھیں گے۔ وہ کوئی کام کریں گے تو عوام پر احسان نہیں جتائیں گے بلکہ اپنا فرض سمجھ کر کریں گے۔ اس لیے خدارا! اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کریں، اپنے ووٹ کی اہمیت کو جانیں اور اتنی معمولی چیزوں پر ووٹ کو فروخت نہ کریں۔دروان انتخابات اپنے پیش نظر نظام کی تبدیلی کی خواہش رکھیں۔ یہی ملک و قوم کے مفاد میں بہتر ہے اور اسی میں ملک و قوم کی ترقی کا راز مضمر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں