ووٹ کی طاقت سے جمہوری انقلاب لانے کی ضرورت

ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں ملک بھرمیں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے ایک ہی دن میں انتخابات منعقد کروانے میں اتفاق ہوگیا ہے اور سولہ مارچ کو اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں گی اسکے لیے چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ اسمبلیوں نے اپنا آئینی دورانیہ مکمل کیا ہے جس کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور فوج کا بھی کردار اہم رہا ہے الیکشن ملتوی کروانے کے لیے بھی مختلف حربے استعمال کیے گئے لیکن سیاسی جماعتوں کے لیے ایک نقطہ پر متحد ہونے پر یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ ملک بھر میں الیکشن ہونے جارہے ہیں الیکشن کمیشن نے بھی اپنے اقدامات مکمل کرلیئے ہیں انتخابات کے باقاعدہ شیڈول کا ابھی اعلان نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود ملک بھی میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکاہے ہرمحفل میں سیاست ہی موضوع بحث ہے تاہم سیاسی جماعتوں نے تاحال اپنے امیدواروں کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے لیکن عوام کے جوش وخروش میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے باقاعدہ انتخابی مہم کے آغاز ہونے کے ساتھ ہی اس میں مزید تیز ی آجائے گی الیکشن کے قریب آنے تک عوام مختلف سیاسی جماعتوں کے منشور اور امیدواروں کے نصب العین سے بھی آگاہ ہوچکے ہونگے انتخابی مہم کا بنیادی مقصد بھی یہی تصور کیا جاتا ہے کہ امیدوار اپنے حلقہ انتخاب میں اپنی جماعتوں کے منشور اور اپنے آئند ہ کے لائحہ عمل کے بارے میں جلسوں پمفلٹوں اور میڈیا کے زریعے عوام تک پیغام پہنچائیں جس کے لیے الیکشن کمیشن نے ایک مخصوص حد تک اخراجات کرنے کی بھی اجازت دے رکھی ہے لاریب انتخابات کے دن شہریوں نے حق رائے دہی کے زریعے سے ہی ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے لیکن اگر ملکی تاریخ کو دیکھاجائے تو انتخابات میں ووٹ کا ٹرن آوٹ اوسطا42 فیصد سے بھی کم ہی رہا ہے1977ء کے الیکشن میں ملکی تاریخ میں سب زیادہ ٹرن آوٹ61.09 فیصد رہا 1988 ء کے الیکشن میں کم ہوکر43.07فیصد 1990 ء کے انتخابات میں معمولی اضافہ کے ساتھ45.46فیصدر ہا1993ء میں دوبارہ کم ہوکر40.28فیصداوراسی طرح1997ء اور۱لیکشن 2002میں کم ہوتے ہوئے بالترتیب35.42اور32فیصدر رہا 2008ء کے الیکشن میں اضافے کے ساتھ 44فیصد رہا مذکورہ صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو58 فیصد ووٹر حق رائے دہی استعمال ہی نہیں کررہا ہے تو اس کے نتیجہ میں اہل اور عوام کی توقعات پر پورا اترنے والی قیادت سامنے نہیں آسکتی جس کا خمیازہ پوری قوم گزشتہ 66برسوں سے بھگت رہی ہے دیہات کے مقابلہ میں شہری علاقوں میں ٹرن آوٹ کم ہوتا ہے حالانکہ شہر میں دیہات کی نسبت شرح خواندگی زیادہ ہونے کی بناء پر لوگوں میں سیاسی شعور بیدار ہوتا ہے اس لحاط سے حق رائے دہی کا استعمال بھی زیادہ ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے یہ پڑھا لکھا طبقہ الیکشن کو نظام بدلنے کی بجائے چہرے بدلنے کا نام دیکر حق رائے دہی کے استعمال سے کنارہ کشی اختیار کرلیتاہے اور الیکشن کی تعطیل کو سونے میں گزرار دیتا ہے حالانکہ یہ دن ہی ملک میں حقیقی جمہوری نقلاب برپا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اس لئے ہر ووٹر کو اپنا حق ضرور استعمال کرنا چاہیے چونکہ حلقہ میں متعدد امیدوارہوتے ہیں اور ہرایک نے اپنی اہلیت اور بساط کے تحت اپنی انتخابی مہم چلا کر لوگوں تک اپنا پیغام ضرور پہنچایا ہوتا ہے اس لئے جس امیدوار کا منشور کسی دوسرے سے قدرے بہتر ہے یاوہ کسی دوسرے سے کم برا ہے تو اس کے حق میں ووٹ کاسٹ کردیں اس سے آپ کا ووٹ ضائع نہیں ہوگا کم از کم جو زیادہ برا ہے اس کا راستہ تو رکے گا اگر ووٹ کو سرے سے پول ہی نہیں کیا تو اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ آپ برے اورکرپٹ امیدوارہی کو اقتدار میں لانے کے لیے متفق ہیں اور اسی پرانے چہرے اور فرسودہ نظام کے حق میں ہیں الیکشن 2013ء کے لیے الیکشن کمیشن نے ٹرن آوٹ 88فیصدتک لیجانے کا ہدف مقرر کیا ہوا ہے چونکہ دنیا میں سب سے زیادہ ووٹ ڈالنے کی شرح 92.5اٹلی کی ہے کمبوڈیا 90فیصد کے لحاظ سے دوسرے جبکہ برطانیہ 74.9 فیصدکے لحاظ سے دنیاکے نواں نمبر پر ہے چونکہ مذکورہ ممالک کے شہریوں میں سیاسی بیداری کے ساتھ ساتھ پاکستان کی نسبت رائے دہندگان کوزیادہ سہولیاتیے میسر ہیں وطن عزیز کے چوالیس لاکھ کے قریب شہری دنیا کے مختلف ممالک میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں ان کے رہائشی ممالک میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے حکومت نے تاحال کوئی پالیسی کا اعلان نہیں کیا ہے بلکہ اس کے حل کے لیے آئندہ کی پارلیمنٹ پر فیصلہ چھوڑ دیا ہے جس سے ایک بڑی تعداد ووٹ ڈالنے سے محروم رہ جائے گی اس طرح وطن میں بھی لاکھوں شہری نوکری کے سلسلہ میں ملک کے دیگر شہروں میں موجود ہیں جبکہ ان کی ووٹ آبائی علاقوں میں درج ہے وہ اپنے اخراجات پر حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے اپنے علاقہ میں جانے کی سکت نہیں رکھتے اس طرح دیہی علاقوں با لخصوص خیبر پختونخواہ میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلنے ہی نہیں دیا جاتا ہے ایسے حالات میں 88فیصد کا ٹارگٹ پورا کرنا کافی مشکل نظرآ رہا ہے لیکن اس کے باجود بھی اگر الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی سیاسی جماعتیں، این جی اوز اور بالخصوص میڈیا اپنا کردار مثبت طریقے سے اداکرے تو ووٹ کے زریعہ سے ملک میں ایک حقیقی جمہوری انقلاب لایا جاسکتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں