ووٹ فروخت کرنے والے خریداروں سے بڑے مجرم ہیں

چند روز قبل لاہور کے حلقہ این اے 133میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے پر ووٹ خریدنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ اس کے بعد حکمران جماعت کے رہنماؤں اور وفاقی وزراء کو اپوزیشن جماعتوں کے خلاف بولنے کا ایک بار پھر بھرپور موقع مل گیا۔ حالانکہ یہاں کوئی بھی دودھ کا دھلا ہوا نہیں ہے سبھی ایک دوسرے سے بڑھ کر کرپٹ اور ووٹوں پر ڈاکے ڈالنے والے ہیں انتخابات سے قبل سیاستدان عوام پر پیسہ لٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے فلاحی کاموں کے علاوہ بسا اوقات نقد معاوضہ بھی دیا جاتا ہے اور اسے ہی ووٹ کی خریداری کہتے ہیں۔ ووٹ خریدنا اور فروخت کرنا دونوں ہی انتہائی گھناؤنے جرائم ہیں۔ کوئی سیاسی جماعت اگر ووٹ خرید رہی ہے تو بے شک وہ بہت براکام کر رہی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ برا کام وہ شخص کر رہا ہے جو چند ٹکوں کے لیے اپنا اور اپنے پورے خاندان کے ووٹ فروخت کر رہا ہے۔ جس سیاستدان نے ووٹ خریدے وہ تو اسمبلی میں پہنچے گا اور ہزاروں کے بدلے لاکھوں بلکہ کروڑوں کما لے گا لیکن آپ نے چند روپوں کے عوض اپنے ضمیر کا سودہ کردیا۔ کتنی ناانصافی ہے؟ ہمارے ہاں تو ایک ایک نالی کے لیے ووٹ فروخت ہو جاتے ہیں معمولی سے کام کرواکر اپنے ووٹ نااہل اور کرپٹ لوگوں کو دے دیے جاتے ہیں۔ جو شخص پیسہ خرچ کر کے انتخابات جیتنے کی کوشش کر رہا ہے کیا وہ ملک و قوم کی خدمت کرے گا؟ وہ تو اپنے پیسے پورے کرے گا، ظاہر ہے جب اس نے خرچہ کیا ہے تو وہ اسے واپس بھی تو لے گا۔ بلکہ کئی گنا منافعے کے ساتھ واپس لے گا، یہ واپسی ملکی خزانے سے ہو گی۔جو کہ صرف عوام کا ہے تو جب عوام سیاستدانوں سے انتخابات سے قبل اس طرح خرچہ کروائیں گے تو پھر وہ سود سمیت لوٹانا بھی پڑے گا۔ انتخابات کے بعد عوام کے ہاتھوں سے اختیار نکل جاتا ہے اور سیاستدانوں کے ہاتھ مضبوط ہو جاتے ہیں اب وہ جو چاہے اور جیسے چاہے کرتے ہیں۔ جس شخص میں خدمت کا جذبہ ہو وہ ناجائز حربے استعمال کر کے انتخابات جیتنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ وہ جائز طریقے سے انتخابات میں حصہ لیتا ہے یا خدمت کے لیے کوئی دوسرا راستہ اختیارکرتا ہے۔ جتنے بھی لوگ ناجائز طریقوں سے یا لالچ وغیرہ کے ذریعے الیکشن جیتنے کی کوشش کرتے ہیں،تو عوام کو چاہیے کہ ان سے چھوٹے چھوٹے، نہایت معمولی کام کروانے کے بعد ملکی سطح پر کسی بھی تبدیلی کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ووٹ فروخت کرنے والے عوام ملکی تنزلی کے بہت بڑے ذمہ دار ہیں۔ وہ معمولی سے مفاد کے لیے اپنا ووٹ ایک نااہل شخص کو دیتے ہیں جو پانچ سال تک پوری قوم کو ستاتا ہے۔ اس گناہ کی پوری کی پوری ذمہ داری جس طرح سیاست دانوں پر ہے اسی طرح ووٹ فروخت کرنے والوں پر بھی ہے۔ نااہل شخص کو ووٹ دینا تو بہت بڑا گناہ ہے،کیونکہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ ووٹ کی شرعی حیثیت سفارش یا گواہی کی ہے۔ یہ دونوں نااہل کے حق میں ہوں تو کبیرہ گناہ بن جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے جھوٹی گواہی سے منع فرمایا ہے اسی طرح متعدد احادیث میں بھی ناحق سفارش اور جھوٹی گواہی کو گناہ کبیرہ شمار کیا ہے۔ لہٰذا جو لوگ نااہل کو ووٹ دیتے ہیں تو وہ اس گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ جو لوگ اہل افراد کو ووٹ دیتے ہیں وہ ان تمام فضائل کے مستحق ہوتے ہیں جو کسی اہل کی سفارش اور سچی گواہی کے لیے قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں۔ ہمارا ملک تمام تر وسائل اور جغرافیائی اہمیت کے باوجود ترقی کیوں نہیں کر رہا؟ اس کی ایک بنیادی اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک پر نااہل حکمران مسلط رہے اور ان نااہل حکمرانوں کے ذمہ دار عوام ہیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے بڑے بڑے ملکی مفادات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور ملک کو تباہی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ اس لیے ووٹ فروخت کرنے والے ووٹ خریدنے والوں سے زیادہ بڑے مجرم ہیں۔ ایک ایک ووٹ قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرتا ہے، اس لیے ایک ایک ووٹ نہایت قیمتی ہے۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے کہ ایک ایک بریانی کی پلیٹ پر ووٹ دے دیا جاتا ہے، جس نے اچھی گاڑی بھجوا دی اسے ووٹ دے دیا۔ یہ انتہائی شرمندگی کی بات ہے۔قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا اصل کام قانون سازی ہوتا ہے گلیاں، نالیاں بنوانا نہیں۔ان کی بہتر قانون سازی ملک کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچا سکتی ہے اور ناقص قانون سازی یا قانون سازی کی طرف عدم توجہی ملک کو تنزلی کے اندھیروں میں دھکیل سکتی ہے۔ تو جو لوگ نااہل اور جاہل ہیں وہ کیا قانون سازی کریں گے؟ لہٰذا اگر ہم نظام میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں اور ملک کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں توہمیں امیدواروں کو جانچنے کے پیمانے بدلنے ہوں گے۔ اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی و قومی مفادات کی خاطر اہل اور دیانتدار افراد کو ووٹ دیں تو اس سے ملکی ترقی بھی ممکن ہو گی اور ہماری تمام ضروریات بھی پوری ہوں گی۔
ضیاء الرحمن ضیاءؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں