ووٹوں سے آگے نکلے ہوئے چوہدری نثار علی خان / مسعود جیلانی

چک بیلی خان نہ صرف وادئ سواں بلکہ ضلع چکوال کے شمالی اور تحصیل گوجر خان کے مغربی دیہاتوں کا معاشی مرکز ہے یہاں آٹا ،چینی ، گھی دالیں غرض کہ ضروریاتِ زندگی کی ہر وہ چیز مل جاتی ہے جس کے لئے کسی دکان پر جانا ہوتا ہے نہیں ملتی تو وہ چیز نہیں ملتی جو حکومتِ پاکستان یا حکومتِ پنجاب نے دیناہوتی ہے پیپلز پارٹی کے گذشتہ دورِ حکومت میں چک بیلی خان نواحی موضع روپڑ خورد کے ایک نوجوان ملک شاہد بشیر نے پیپلز پارٹی کی راہنما فرزانہ راجہ کی قربت ہونے کی بنیاد پر ان سے چک بیلی خان میں نادار رجسٹریشن سنٹر بنانے کی درخواست کی جسے منظور کرتے ہوئے محترمہ فرزانہ راجہ نے چک بیلی خان میں

نادار کا رجسٹریش سنٹر قائم کروا دیا دیکھتے ہی دیکھتے کام کا اتنا رش بڑھا کہ یہ سنٹر علاقے کے نمایاں مراکز میں شمار ہونے لگا نجی سطح پر پہلے ایک بینک تھا جو ڈیپازٹ کے لحاظ سے اپنے سرکل میں پہلی پوزیشن پرتھا اسے دیکھتے ہوئے دیگر بینک آئے اور کامیابی کی ان حدوں کو عبور کیا کہ بزرگوں کا یہ قول باکل سچ ثابت ہوتا نظر آنے لگا کہ اگر چک بیلی خان میں کتا بھی بھوکا آ جائے تو اسے بھی اتنا رزق ملتا ہے کہ وہ واپس نہیں جاتا خدا کی جانب سے چک بیلی خان کی ترقی تو نظر آ رہی ہے لیکن جو بندوں کے ہاتھ ترقی ہے

اس میں حسد اور بغض کی بو ضرور ملتی ہے قدرت نے چک بیلی خان کو تیل و گیس کی نعمت سے اس قدر مالا مال کیا ہے کہ لگ بھگ دس کامیاب کنوئیں ملک کے طول و عرض تک تیل و گیس پہنچا رہے ہیں مگر اس علاقے کے لوگوں کو سالن کی ایک پلیٹ گرم کرنے کے لئے بھی گیس نہیں ملتی ق لیگ کے دورِ حکومت میں راجہ بشارت نے سابق وفاقی وزیرِ پٹرولیم نوریز شکور صاحب کے ہمراہ چک بیلی خان کے جلسہ میں دعا کی تھی کہ اگر ہم اس علاقے کی گیس اس علاقے کو نہ پہنچا سکیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس علاقے میں آنے کے قابل نہ چھوڑے بس اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دعا کو قبول کیا وہ اس علاقے کو گیس تو فراہم نہ کر سکے لیکن اس علاقے میں آنے کے قابل بھی نہ رہے جناب چوہدری نثار علی خان کے سامنے جب بھی یہ مطالبہ رکھا جاتا ہے تو ان کے ہونٹ کسی ہاں یا نہ میں نہیں ہلتے خدا بہتر جانتا ہے

کہ انہیں اس علاقے کی ترقی قبول نہیں یا وہ ڈرتے ہیں کہ وہ بھی کہیں راجہ بشارت کی طرح اس علاقے میں آ نے کے قابل ہی نہ رہیں تیل و گیس کے ان کنوؤں کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی گیس مانگنے والے پانی سے بھی محروم ہو گئے ق لیگ کے دورِ حکومت میں جناب راجہ بشارت نے پندرہ دنوں کے اندر اندر واٹر سپلائی سکیم دینے کا حکم صادر کیا جس کے لئے پائپ بھی بچھا دئیے گئے مگر پانی نہ ملا بعد میں وہ پائپ لوگوں نے اپنے گھروں کی چھتیں بنانے میں استعمال کر لئے ن لیگ نے اسے دیرینہ مسئلہ سمجھتے ہوئے ایک بڑے کام کا نام دیکر دو کروڑ روپے کی منظوری سے واٹر سپلائی منطور کروائی مگر یہ بھی کہاں پیچھے رہتے

نواز لیگ نے بھی اپنوں کو نوازنے کے لئے گھر کی کچن کیبنٹ ترتیب دے کر اپنے لوگوں پر مشتمل واٹر سپلائی کمیٹی بنائی جو مہینے میں صرف تین دن دو گیلن یومیہ کے حساب سے پانی فراہم کرتی ہے جسے لوگ بھی پورا مہینہ آبِ زم زم کے طور پر استعمال کرتے ہیں کئی لوگ تو پانی نہ ملنے پر بل ہی ادا کرنا بند کر دیتے ہیں لیکن ان کی مساجد کے لاؤڈ اسپیکروں پر وہ دھلائی کی جاتی ہے کہ پھر انہیں پانی بھول ہی جاتا ہے اب مجبوری یہ ہے کہ لوگ واٹر ٹینکروں اور گدھا گاڑیوں کے ذریعے کہیں نہ کہیں سے گندا مندا پانی حاصل کر کے گزرا کرتے ہیں

تو بیماریاں سر چڑھ جاتی ہیں جن کے علاج کے لئے 100کلومیٹر دور راولپنڈی سے پہلے کوئی ہسپتال دستیاب نہیں یہاں تک کہ حادثات میں تو علاج کا بھی موقع نہیں ملتا ایک دفعہ چک بیلی خان سے ایک کلومیڑ کے فاصلے پر ایک ہفتے میں مسلسل چھ حادثات ہوئے جن میں سے ایک حادثے میں لوگ زخمی تھے کہ محمود نامی ایک شخص موضع کولیاں گوہرو کی دو پانچ اور سات سال کی بچیوں کی میتیں کاندھے پر اٹھائے جب چک بیلی خان میں ڈاکٹر ڈھونڈنے پہنچا تو اسے محکمہ صحت کے ایک نائب قاصد سے بڑا کوئی ڈاکٹر نہ ملا فرطِ جذبات سے محمود چلانے لگا

اور کہا کہ ہے کوئی سیاسی کھڑپینچ جو اس علاقے میں ہسپتال کے لئے آ واز بلند کرے محمود کی اس جذباتی چلاہٹ کو سن کر ایک عام سے ن لیگی کارکن رانا رفعت نے ادارہ کر لیا کہ اب چوہدری نثار علی خان کے چک بیلی خان آنے پر وہ خود چک بیلی خان میں ہسپتال کے قیام کی بات کرے گا چوہدری نثار علی خان نے پاپین بنگلہ چک بیلی خان میں کھلی کچہری لگائی تو رانا رفعت اپنا مطالبہ لے کر پہنچ گیا رانا رفعت کا مطالبہ سن کر جناب چوہدری نثار علی خان نے عجیب منطق پیش کی کہ یہاں کوئی عملہ ہی نہیں آتا تو ہسپتال بنانے کا کیا فائدہ۔ لوگ یہ منطق سن کر حیران رہ گئے اور واپسی پر یہ تبصرہ کیا کہ سکولوں کے اساتذہ، بینکوں کے ملازمین ، نادراکا عملہ حتیٰ کہ لوگوں کی ٹھکائی کے لئے بنی ہوئی پولیس چوکی پر عملہ آ سکتا ہے تو چک بیلی خان ہسپتال کے لئے عملہ لانے پر چوہدری نثار علی خان جیسا با اثر لیڈر بھی بے بس ہے واہ جی واہ چوہدری صاحب! قربان جائیں آپ کی اس منطق پر آپ جب بھی آتے ہیں لوگوں سے کم ووٹ ملنے کا گلہ کرتے ہیں ذرا جائیے کولیاں گوہرو اور حادثے میں ہلاک ہونے والی بچی اقراء کے والدعابد نامی شخص سے پوچھئے جسے اب اپنی بیٹی اقراء کے سوا اور کوئی دنیا ہی دکھائی نہیں دیتی

جس کا دادا محمود نامی شخص کے ہاتھوں میں اپنی معصوم پوتی کو مردہ حالت میں دیکھتے ہوئے ہلکان ہوئے جا رہا تھا اس کے تو حواس ہی قائم نہیں تھے اسے اتنا بھی علم نہیں تھا کہ جس پگڑی کے نام پر وہ عمر بھر ووٹ دیتا ریا وہ پگڑی کی لاج اس کی پوتی کے لئے زندگی کے وسیلے کے لئے ایک ہسپتال تک قائم نہ کر سکی لیکن آپ تو اس کے دادا کی ووٹوں سے اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ اب وہ بابا آپ کو ووٹ نہ بھی دے تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن آپ اتنے بے بس ہیں کہ چک بیلی خان ہسپتال کے لئے بلڈنگ تو بنا سکتے ہیں مگر عملہ نہیں لا سکتے۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں