وقت کی قدر کامیا بی کی ضمانت

لارڈچسٹرفیلڈایک معروف دانشورتھاجو۳۷۷۱ء میں اس دنیاسے نام کماکرچل بسا۔وہ اپنے بیٹے کواکثرخطوط لکھتاتھاجن میں زندگی کی کامیابی کے رازعیاں کرتارہا۔ایک خط میں وہ اپنے بیٹے فلپ اسٹین سے مخاطب ہوکرکہتاہے کہ تم اپنے منٹوں کی حفاظت کرو،گھنٹے اپنی حفاظت آپ کرلیں گے۔اس خوبصورت قول کامطلب یہ ہواکہ جس آدمی نے جزوکاخیال رکھایعنی قدرکی اس نے گویاکل کاخیال رکھا۔ایک شخص اگرایک دن میں چوبیس میں سے پانچ گھنٹے ضائع کردے تووہ اپنی سترسالہ زندگی کے ساٹھ فی صدحصے کو بنا کوئی کام کئے گزار دیتا ہے کیونکہ ایک انسان اپنی آدھی زندگی سو کر گزار دیتا ہے۔ اور اگرباقی آدھی کے ہردن کے چوبیس گھنٹوں میں سے پانچ گھنٹے ضائع کردے توساڑھے چودہ برس بری طرح ضائع کردے۔یعنی اس کی سترسالہ زندگی کے کارآمدبرس صرف اکیس برس ہوئے۔اس کے برعکس اس دنیامیں چندافرادایسے بھی ہوتے ہیں جواپنی سترسالہ زندگی میں سے اکیس برس کوکارآمدبنانے کی بجائے پچاس برس کوکارآمدبناکریہ ثابت کرتے ہیں کہ انقلاب برپاکرنے والے انگلیوں پرہی گنے جاسکتے ہیں۔آرام پرستی اگرکسی فردکی عادت میں شامل ہوجائے تویہ عادت ایک فردسے دوسرے کومنتقل ہوتی ہوئی پورے خاندان کوناکام بنادیاکرتی ہے۔جب بھی کوئی قوم تباہ ہوئی تواس کے پیچھے منٹوں کوضائع کرنے سے لے کرگھنٹوں کی تباہی تک تمام عوامل کارفرماہوتے ہیں۔جب بھی کسی کل کوزوال آیااس کے زوال کاسبب ایک جزواوراس کے بعداجزاء کی تباہی کارفرماہواکرتی ہے۔جس نے لمحات کی قدرکی گویااس نے ایام کی قدرکی۔جس نے ایام کی قدرکی گویااس نے مہینوں اورسالوں کی قدرکی۔اورجس نے اپنی زندگی کے سالوں کوعزت بخشی گویااس نے ایک قوم کی کایاپلٹی۔اوریہ ہوہی نہیں سکتاکہ ایساانسان کسی قوم کالیڈریارہنمانہ بن سکے۔اورجب کسی قوم کاسربراہ وقت کی قدرکرنے والابن جائے تووہ قوم جزوکوضائع نہیں کرتی۔اورجب کوئی قوم اجزاء کوبکھرنے نہ دے توگویااس قوم نے کل کو تباہی سے بچا لیا اورجب کوئی کل کاخیرخواہ بن جائے تواس قوم کوزوال نہیں آیاکرتا۔جوشخص کے۔ٹو فتح کرنے کے خواب دیکھے اسے ہرروزکم ازکم اس کے۔ٹوکے”کے“کوضرورفتح کرنا ہوگا۔ ورنہ ”ٹو“ تک رسائی محض ایک خواب ہی ہو گا۔ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ دریا دریا مل کر قطرہ بنا ہو۔ اگر پیدا ہوتے ہی کوئی دریا ”دریا“ ہوتا تو ساری دنیا سیلابوں کی نذرہوجاتی اورآج ہرطرف سمندرہوتا۔یہ زندگی ایک خاص فارمولے سے مل کربنی ہے جوفارمولہ صرف کل کائنات کامالک ہی بناسکتاہے۔اورجب کوئی فارمولارب کائنات بناتاہے تووہ علم حقیقت کی طرح قانون کاروپ دھارلیاکرتاہے۔مثال کے طورپرہم سب جانتے ہیں کہ حرارت سے مادہ پگھلتاہے۔ہم نے کبھی نہیں دیکھاکہ چولہے پرپانی رکھیں اوروہ فریزہوجائے۔یافریج میں پانی رکھیں اوروہ ابلناشروع ہوجائے۔اللہ کی ذات نے انسان کودماغ دیا۔اورکروڑوں انسانوں میں سے کچھ کواجزاء کی صورت میں انفرادیت دے کردوسروں سے منفردکیا۔اورپھران منفردافرادنے اپنے جیسوں کو کامیاب کرنا شروع کر دیا۔ پھر کیا
ہواکہ تپتے صحراؤں میں ایک فریج گرم بجلی کی بدولت پانی کو برف بنارہاہے۔پھرکیاہواکہ گلیشیرکے درمیان ایک چولہابرف کوابال رہاہے۔یہ سب جب ہی ممکن ہواکہ جب اس کائنات میں سب سے پہلے ایک جزوکوکامیابی ملی۔پھراجزاء کامیاب ہوئے اورپھراس کے بعدکل کوکامیابی ملی۔اوریہ ریت آج تک قائم ودائم ہے۔توظاہریہ ہواکہ معمولی سی کامیابی کوبھی معمولی نہ سمجھیں۔کیونکہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں مل کربڑی کامیابیوں کوجنم دیتی ہیں۔اورجب کوئی بڑی کامیابی کسی قوم کے ایک فردکے حصے میں آجائے توبڑی بڑی کامیابیاں اس قوم کامقدربن جایاکرتی ہیں۔لیکن یادرہے کہ یہ وہی قوم ہے کہ جس نے کسی وقت اجزاء کی قدرکی اورآج کل اس کا مقدر بنا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اورآپ نے دیکھاکہ کوئی قوم ستربرس کی عمرمیں بھی ناکام ہے اورکوئی پچاس برس کی عمرپاکربھی کامیاب وکامران ہے۔اتنے بڑے فرق کی بڑی وجہ گزرتے لمحات کی قدریابے قدری ہے۔دستیاب وسائل سے استفادہ کرنایاان وسائل کاضائع کرنا ہی کسی قوم یاافرادکی کامیابی یاناکامی ہواکرتی ہے۔اورپھراس کے بعدہوتایہ ہے کہ”کوئی مر کے امرہوگیا،کوئی زندہ بھی گم نام ہے۔“ایک گناہ گارانسان اپنی زندگی کے ہرلمحے خود کو اذیت میں پاتاہے اورایک باکرداراورنیک انسان اپنی حیات کاہرلمحہ پرسکون رہ کر گزارتا ہے۔ کامیاب وہ ہے کہ جس نے اپنے منٹوں کی قدرکی اوراپنی زندگی کے تمام گھنٹے اس کے ہوتے گئے۔ کیونکہ گھنٹوں سے دن اور ایام سے مہینے اور مہینوں سے سال بنتا ہے۔ اور سالہا سال کی محنت سے کوئی آدمی انسان بنتا ہے۔ ورنہ اکثر ہم نے دیکھاکہ بہت سے آدمی ”آدمی“ ہی رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ آدمی انسان بن جاتے ہیں۔گویاانسان وہ ہواکہ جس میں انسانیت پائی جائے۔اوریہ کیسے ہوسکتاہے کہ جس شخص نے اپنے اوقات کی قدرکی ہواوروہ ناکام ہوجائے۔وہ یقیناکامیاب ہے۔ اورجوکامیاب ہے وہی انسان ہے۔ورنہ حرکت توچارٹانگوں والے بھی کرتے ہیں۔پانی توچارٹانگوں والے بھی پیتے ہیں۔خوراک تو چار ٹانگوں والے بھی کھاتے ہیں۔ایک انسان نے ریڈیودریافت کرکے ساری دنیا کو گلوبل ویلج بنادیا۔اوراسی طرح کے دوٹانگوں والے ایک آدمی نے برائی کی بنیادرکھ کران گنت افرادکوبرائی کادرس دے دیاجوآج عام سے عوام ہوتی جارہی ہے۔اچھے اجزاء جب کل کاروپ دھارتے ہیں تودھرتی سنورجایاکرتی ہے۔مگربرے اجزاء جب کل کی شکل اختیارکرتے ہیں توبے چینی جنم لیتی ہے۔مگریادرہے کہ جس نے اپنے منٹوں کی حفاظت کی اس نے دھرتی کی حفاظت کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں