عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ وقت کی قدروقیمت نہیں پہنچانتے انہیں یہ پتا ہی نہیں کہ انسان کے ہاتھ میں اصل دولت وقت ہی تو ہے چنانچہ جس نے وقت ضائع کر دیا گویااس نے سب کچھ ضائع کر دیا اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کے ہر لمحہ کے ساتھ ایک فرض باندھ رکھا ہے جس کی ادائیگی ہی میں اس کی زندگی کی ساری بہاریں پوشیدہ ہیں اگر وہ اپنی زندگی کے کسی لمحہ میں بھی اس فرض کو پہچاننے یا ادا کرنے میں کوتاہی کر جائے جو اس لمحہ کے ساتھ مخصوص ہے تو پھر اس فرض کا وقت زندگی میں کبھی بھی نہیں آتا مثلاََ اگر رمضان کا ایک روزہ جان بوجھ کر چھوڑ دیا جائے تو اس کی تلافی ساری عمرکے نفل روزہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس کے بعد زندگی میں جو لمحات بھی میسر ہوتے ہیں وہ اپنے فرائض اور اپنی زمہ داریاں ساتھ لاتے ہیں اس لئے جو فرض رہ گیا گو یا وہ ہمیشہ کیلئے رہ گیا اگر اس کو اصلی وقت کے بعد پورا کرنے کی کوشش کی بھی گئی تو بغیراس کے ممکن نہیں ہے کہ اس کے سارے مساوی یا اس سے بھی زیادی بھاری دوسرے کسی فرض کو اس کی خاطر نظر انداز کر دیا جائے دولت‘وقت کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ رکھ چھوڑنے کی چیز نہیں ہے یہ برف کے تودے کی طرح ہر وقت پگھلتی رہتی ہے اگر انسان اس سے پوری مستعدی کے ساتھ فائدہ نہ اٹھائے تو یہ بہت جلدی پانی بن کر روانی کے ساتھ بہہ جاتی ہے اور انسان اپنی غفلت اور بد بختی پر ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے پھر اس کی فطرت یہ بھی ہے کہ یہ ایک شمشیر دورم ہے جس کے کاٹ دوطرفہ ہے اگر آپ اس کو اپنے حق میں استعمال نہ کر سکے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ خودبخود آپ کے خلاف استعمال ہو گئی کیونکہ انسان ایک وقت میں یا تو اچھا کام کرے گا یا برا اس لئے اگر کسی نے صحیح ترجیحات متعین نہیں کیں اور وقت کو اچھے کاموں میں استعمال نہیں کیا تو لازماََوہ برے اور غیر مفید کاموں میں ہی بسر ہو گا اگر اس کے ایک ایک لمحہ بدلے میں آپ نے اجر نہیں کمایا تو صرف یہی خسارہ نہیں ہو ا کہ آپ نے اپنے سرمایہ سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ اس کا دردانگیز پہلو یہ بھی ہے کہ ضائع شدہ زندگی کا ایک ایک پل آپ کیلئے وبال بنا جس کی جواب دہی کرنی پڑے گی یہ رائیگاں جانے والی زندگی صرف اکارت نہیں ہو جاتی بلکہ انسان پر ایک ابدی لعنت بن کر مسلط ہو جاتی ہے فرمان الہٰی ہے کہ”قسم ہے زمانے کی کہ انسان بڑے خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرتے رہے اور صبر کی تلقین کرتے رہے“اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم اس لئے کھائی ہے کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ عمدگی اور قیمتی ہونے میں انمول ہے اگر انسان ساری عمر لایعنی کا موں میں برباد کرتا رہا لیکن زندگی کے آخری لمحہ میں بھی توبہ کی سعادت حاصل ہو گئی تو وہ ہمیشہ کیلئے جنت میں جا سکتا ہے زمانہ او ر وقت تو وہ خالص نعمت ہے جس میں کوئی عیب نہیں یہ تو غافل انسان ہے جو دن رات کے فرصت کے اوقات کو ضائع کر کے نقصان اٹھانے والا اور عیب داربنتا ہے انسان کے خسارے کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ نعمت وقت اور اس کے صحیح مصرف دونوں کی قیمتوں میں موازنہ نہیں کرتا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اشرفیاں تو لٹاتا ہے اور کوئلوں پر مہر لگاتا ہے جواہرات کے بدلے سنگ ریزے خریدتا ہے کانٹوں کو چنتا ہے اور پھولوں کو پھینکتا ہے اگر انسان کے پاس صرف ایک روٹی ہو اور خود اس کو اوراس کے بچوں کو فاقہ درپیش ہو تو وہ بچوں کی روٹی ضائع کرنے کی غلطی کبھی کرئے گا اگر ایک مسافر کے پاس پانی کی ایک چھاگل ہو اور اس کو صحراکا سفر درپیش ہو تو وہ اس پانی کو کبھی ضائع نہیں کرے گا بلکہ
اس کا ایک ایک قطرہ اپنی زندگی بچانے کیلئے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے گا اگر کسی کے ترکش میں ایک ہی تیر ہو اور راستے میں اسے شیر یا بھیڑیاسے دوچار ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ یہ حماقت کبھی نہیں کر سکتا کہ وہ اس ایک ہی تیر کو گیڈروں اور لومڑیوں کے شکار پر ضائع کر دیے بلکہ وہ اس کو اصل خطرے کی مدافعت کیلئے ہی استعمال کرنے کی کوشش کرے گا لیکن حیرت یہ ہے کہ وہی انسان جو اپنی ایک روٹی‘اپنے ایک چھاگل پا نی اور اپنے ترکش کے ایک تیر کے مسرف کو متعین کرنے میں اتنا زیادہ محتاط ہے جبکہ اس کے سامنے خود اپنی زندگی جیسی بیش قیمت چیز کے متعین کرنے کا سوال آتا ہے تو وہ بلکل ہی نادان بن جاتا ہے ظاہر ہے کہ ہمارے حصے میں ایک ہی زندگی آئی ہے کئی زندگیاں نہیں آئی ہیں اس زندگی کے بدلے میں ہم یا تو ابدی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں یہ ابدی ناکامی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ابدی کامیابی یعنی رضائے الہی کا حصول کوئی بچوں کا کھیل نہیں یہ چیز محض خواہش ظاہر کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتی اس کیلئے انسان کو قدم قدم پر مہمات سر کرنی پڑتی ہیں اور زندگی کے ہر موڑ پر معرکے جیتنے ہوتے ہیں ان مہمات کو سر کئے بغیرانسان ابدی کامیابی حاصل کر ہی نہیں سکتاقرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے وقت کی قدروقیمت اور اس کی اہمیت واضح کرنے کیلئے فجر‘دھوپ‘ضحٰی‘عصر اور دن رات گویا زمانے کی مختلف کیفیات کی قسم کھائی ہے ان کا ایک مقصد تو انسان کو وقت اور عمر کی تیزی سے رواں لہروں سے نفع اٹھانے اور ایک ایک لمحہ کو تول تول کر خرچ کرنے کی طرف توجہ دلانا ہے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ ان میں سے ہر کام اور تبدیلی اہمیت کے حامل ہے قرآن پاک اور سنت مطاہرہ کے احکام پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ہر عمل وحکم کو ایک معین وقت کے اندر ادا کرنے کی پابندی لگائی ہے مثلاََ ہر نماز کی ادائیگی ایک معین وقت کی پابند ہے وقت سے پہلے وہ ادا نہیں ہو سکتی اور شریعت کا مقرر کردہ وقت نکل جائے تو اس وقت کی نماز کی قضا ہو سکتی ہے لیکن اس قضا کو کوئی ادا نہیں کہہ سکتا نہ ہی اس کی تلافی کسی صورت میں بھی ممکن ہے اس طرح حج بھی ایک مخصوص ماہ کے ایام میں مکہ معظمہ میں ہی سو سکتا ہے اور اس کے مناسک کی ادائیگی کیلئے بھی اوقات معین ہیں اس سے قبل یا بعد میں اس فریضہ کی ادائیگی ممکن ہی نہیں مثلاََان ایام کے بعد یا پہلے کوئی سال بھر وقوف‘عرفات‘منیٰ یا مزدلفہ کرے یا طواف‘زیارت یا قربانی حج کرتا رہے اس کو حج نہیں کہا جا سکتا واجب قربانی کیلئے بھی مہینہ و ایام مخصوص کئے گئے ہیں اس کے علاوہ قربانی کرنے سے یہ واجب ادا نہیں ہو سکتا دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں وقت کی قدروقیمت پہچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے ہال میں اس وقت ایک دلکش اور یادگار منظر…
راولپنڈی (نامہ نگار سید قاسم) وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر میں مذاکرتی عمل کی…
معاشرتی انصاف اور مساوی حقوق کے لیے کی جانے والی ہر جدوجہد کی طرح، معذوری…
عالمی چوہدری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پرانی مسلم دشمنی اور یہود دوستی کا…
کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کلرسیداں میں خصوصی "زیرو…
کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) آئیسکو کی کارروائی موضع انچھوہا میں بجلی چوری پکڑی گئی، مزاحمت…