وقت کی اہمیت کا اندازہ

شاہد جمیل منہاس
الیگزینڈرسالزنیٹسین ایک روسی ناول نگارہے۔اس نے روسی عوام کے دکھوں کواپنی کہانیوں میں تمثیلی اندازمیں جب نمایاں کرناشروع کیاتوروس کی اشتراکی حکومت کویہ بات ناگوارگزری۔لیکن روسی حکومت کی یہ حرکت سالزنیٹسین کواس سے بھی زیادہ ناگوارگزری اوراس نے اپنے وطن کوخیربادکہہ کرافریقہ میں پناہ لے لی۔وہ اپنے خیالات کوکتب کی شکل میں مرتب کرنے کیلئے امریکہ کی ایک بستی”ورمونٹ“میں خاموشی کی زندگی گزارنے لگا۔مئی،۲۸۹۱؁ء میں امریکی حکومت نے اسے ایک دعوت نامہ بھیجااوراس کے اعزازمیں اسے واشنگٹن کے وائٹ ہاؤس میں سرکاری طورپرعزت دینے کااہتمام کیاگیا۔اس تقریب میں بے شمارمعززلوگوں کے علاوہ صدرامریکہ خودبھی شریک ہوئے۔اس تقریب کی سب سے بڑی اوراعزازی بات یہ تھی کہ اس دوران صدرریگن اورسالزنیٹسین کے درمیان پندرہ منٹ کی ایک خصوصی ملاقات بھی شامل تھی۔۳مئی،۲۸۹۱؁ء کوسالزنیٹسین کی جانب سے امریکی صدرکوایک خط موصول ہواجس میں تحریرتھاکہ”میں اس تقریب میں شرکت سے معذرت چاہتاہوں۔“اس نے مزیدلکھاکہ”زندگی کے جو مختصر اور سنہری لمحات میرے پاس باقی ہیں وہ مجھے اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتے کہ میں رسمی ملاقاتوں میں اپنا وقت ضائع کروں۔“ مخلوق خداکی خدمت کے جذبے نے سالزنیٹسین کے اوقات پرقبضہ جما لیا اوراس کے لئے اس کے سوا چارہ نہ رہاکہ وہ دنیاکے سب سے بڑے اورترقی یافتہ ملک امریکہ کے صدرکے دعوت نامے کوردکردے۔یادرہے کہ کسی آدمی کے سامنے اگرکوئی واضح مقصدہوتواس کاجواب ایساہی ہواکرتاہے۔وہ رسمی جلسوں اور ملاقاتوں میں رونق کاسامان بن کردھوکے کاشکارنہیں رہتا۔ جبکہ اس کے برعکس ایک عام اور دنیاوی آدمی کی عمریونہی تمام ہوجاتی ہے اوراس کے پاس ایک خالی زندگی کے سواکوئی سرمایہ نہیں رہتا۔انسان کوچاہیے کہ دنیاوی نمودونمائش سے بچنے کیلئے کوئی مقصدحیات لے کراسی میں مگن ہوجائے اورجاتے جاتے اقوام عالم کے لئے اپناواضح اورسبق آموزپیغام چھوڑ جائے۔یہ پیغام الفاظ کی صورت میں نہیں بلکہ اس کے کردارکی صورت میں پوری دنیاکے لئے شفاف آئینے کی طرح عیاں ہوتاہے اورآنے والی ہرنسل اس آئینے میں اپناچہرہ دیکھ کر اپنے خدوخال کوسنوارنے کی کوشش کرتی ہے۔اس کاکریڈٹ ہردفعہ اس باعمل اور باکردار انسان ہی کوجاتاہے جس نے بامقصدحیات کے ذریعے یہ رسم پروان چڑھائی کہ خالی زندگی ایک کٹی پتنگ سے زیادہ نہیں ہے۔کٹی پتنگ کواپنے ٹھکانے کاکوئی پتانہیں ہوتا۔یہ کٹی ہوئی پتنگ ہرلمحہ اس خوف میں رہتی ہے کہ کہ نہ جانے میرامسکن کون سابیاباں یاکانٹے دارجھاڑی ہو گی۔ مقصد سے عاری انسان اپنی ساری زندگی ناخوش اورغیرمطمئن انداز میں گزارتاہے۔بے سکونی کی ایک عجیب سی کیفیت اس کے دل ودماغ پرہروقت چھائی رہتی ہے۔جبکہ بامقصدحیات والے انسان کی زندگی میں ایک روانی اورپرسکون حیات دکھائی دیتی ہے۔یہ سکون دراصل اس کے نیک مقاصدکی بدولت اس پرسایہ کئے رکھتاہے۔کسی انسان کے نیک مقاصدبظاہراوربذات خوداس کے نیک ہونے کی دلیل ہواکرتے
ہیں۔ ازل سے افکاراورخیالات کے پاکیزہ ہونے یانہ ہونے کے لئے کوئی پیمائشی پیمانہ موجود نہیں۔اگرکوئی پیمانہ ہے تووہ ہے کسی انسان کاضمیر،جواسے ہرقدم پریہ کہتارہتاہے اور سوچنے پرمجبورکرتاہے کہ اے انسان!خدارااپنے گریبان میں جھانک کردیکھ۔اگرہم میں سے کوئی بھی اس عادت کواپنی عادت بنالے کہ وہ وقتافوقتااپنے گریبان میں جھانکتارہے تو یہ ہو ہی نہیں سکتاکہ وہ بے مقصدمرجائے۔وہ یقیناکوئی نہ کوئی مقصدلے کرہی اور دنیاکوبہت کچھ نوازتے ہوئے ہی جائے گا۔ہم نے اکثردیکھاہوگاکہ بغیرکسی خاص وجہ کے ہم خوش ہوجاتے ہیں اوربغیرکسی خاص وجہ کے پریشانی ہمارے دل ودماغ پرقبضہ جمالیتی ہے۔یہ دونوں کیفیات دراصل اپنے اندرمقاصدکے موجودہونے یانہ ہونے کی علامات ہوتی ہیں۔پھربالکل ایسے ہی کوئی انسان ساری زندگی بغیرکسی مالی فائدے یانقصان کے خوش یاناخوش ہی رہتاہے۔یہ دونوں کیفیات کسی انسان کویہ بتارہی ہوتی ہیں کہ اے انسان!توغلط سمت جارہاہے۔یااے بندے!توایک کامیاب یابامقصدانسان ہے۔زندگی کسی درمیانی راستے یاڈگرکانام ہرگزنہیں ہے۔زندگی توایک خاص سمت میں روانی سے چلنے کانام ہے۔زندہ انسان ایک مقصدلے کرزندہ ہوتاہے جبکہ مردہ انسان بے مقصدزندہ رہ کریہ بتاتاہے کہ وہ تمام تراعضاء اورروح کے باوجودنہ زندوں میں شمارہے اورنہ مُردوں میں شمارہے۔کبھی خوشی اورکبھی غم کامطلب ہرگزیہ نہیں کہ زندگی کے تواترمیں کوئی مسئلہ ہے بلکہ یہ توزندگی کے ڈگرکانام ہے۔معمولی تغیرات زندگی کامعمول ہیں مگرساری زندگی اگرکوئی انسان دوسرے انسانوں کوبے ثمرہی رکھے تویقیناوہ اس دنیاکاایک بے مقصدانسان ہے۔اقوام عالم کے ممالک کے بانیان سے لے کرقائداعظمؒ اورعلامہ محمد اقبالؒ اور دیگر بے شمارافرادکے کردارنے اپنے رنگ سے اس دنیامیں رنگ بھرے اورآج یہ کائنات رنگ برنگی ہے جواپنے اندراورباہربے شمارپُرمسرت کیفیات لئے ہوئے ہے۔ انسان کواس کائنات کی اشرف المخلوقات اس لئے نہیں کہاگیاکہ اس میں انسانیت پائی جاتی ہے۔اگرکوئی انسان بے دل ہے تووہ معاشرے کے لئے ناکافی اورنقصان دہ ہے۔دوسری بات یہ کہ اگرکوئی آدمی یہ کہتاہواپایاجائے کہ اس کی وجہ سے کبھی کسی دوسرے انسان یا انسانوں کوکوئی گزندنہیں پہنچا،لہٰذاوہ ایک پرہیزگارانسان ہے تویہ بات کافی حدتک درست
ضرور ہے مگرمزہ تب ہے کہ اس کی وجہ سے انسانوں کوسکون اورافرادکوکامیابی اورزندگی گزارنے کاڈھنگ ملے۔قدروں کوفروغ دینے کے لئے انتہائی محنت اورنفیس اورپاکیزہ جذبات کی ضرورت ہوتی ہے۔اورجب اقدارکوفروغ مل جائے تومعاشرہ ان حسین اقدار کی وجہ سے مزیدخوبصورت اورتواناہوجایاکرتاہے۔یہ جذبات مقاصدکومکمل کروانے میں اہم کرداراداکرتے ہیں۔اگرہم اپنے اجدادکے قول وفعل کامطالعہ کریں توزندگی کی کامیابیوں اور آنے والے انسانوں کی کردارسازی کے لئے بیٹے کوباپ پراورباپ کواپنے باپ پرفخرمحسوس کرتاہواپایاجائے گااوراسی طرح آگے پیداہونے والاہربچہ بھی اپنے زمانے کاتخت نشیں بن کرمقاصدکے ساتھ امرہوتاہواپایاجائے گا۔یادرکھنے کی بات ہے کہ سمندرخاموش مگروسیع ترہواکرتاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں