وفاقی بجٹ 24-2023

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 24-2023کے لئے چودہ ہزار چار سو انسٹھ ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا ہے اعداد و شمارکے مطابق وفاقی حکومت کی کل آمدنی چھ ہزار آٹھ سو ستاسی ارب روپے ہوگی جبکہ ٹیکس اورنے کا تقریباً 80 فی صد قرض اور سودکی ادائیگیوں میں خرچ ہو گا قرض اور سود کی ادائیگیوں کے لئے سات ہزار تین سو تین ارب روپے رکھے گئے ہیں دفاع کے لئے ایک ہزار چھ سو چار ارب روپے اور سول انتظامیہ کے اخراجات کے لئے سات سو چودہ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم گیارہ کھرب پچاس ارب روپے رکھا گیا ہے اس میں پارلیمنٹیرنز کی تجویزکردہ اسکیموں کے لئے نوے ارب روپے اور صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کے لئے ایک ہزار پانچ سو انسٹھ ارب روپے رکھے گئے ہیں حکومت کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کو کم سے کم رکھے آ ئندہ مالی سال کے دوران مالی سال کے دوران شرح ترقی کا تخمینہ 235 صد لگایا گیا ہے جبکہ افراط زر کی شرح اندازً اکیس فی صد رہے گی۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق خسار ہ سات ہزار پانچ سو سات ارب روپے ظاہر کیا گیا ہے وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں نو ہزار دو سو ارب روپے کے ٹیکس ریونیو کا ہدف مقرر کیا ہے اور بجٹ خسارے کا تخمینہ 6,157 فی صد ہے بجٹ میں آئی ٹی کے ایکسپورٹرز کے لئے یہ سہولت دی کی ہے کہ آئی ٹی کے متعلق سامان پر کوئی ڈیوٹی نہیں ہوگی۔مانیٹرز اور پروجیکٹرز پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے آئی ٹی سیکٹر پر انکم ٹیکس کی شرح 2026تک برقرار ہے گی فری لانسر کی چو بیس ہزار ڈالر سالانہ آمدن پر ٹیکس سے چھوٹ ہو گی آئی ٹی سینٹر پر پندرہ فی صد سیلز ٹیکس پانچ فی صد کر دیا گیا ہے اور آئندہ سال پچاس ہزار آئی ٹی گریجویٹس تیار کیے جائیں گے بجٹ میں آئندہ تین سال تک کنسٹرکشن انٹرپرائزر کی آمدن پر دس فی صد رعایت دی جائے گی اور اس کا اطلاق یکم جولائی اور بعد میں شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہوگا بحٹ میں زرعی شعبے کے لئے بھی سہولت دی گئی ہے تجارتی سہولتوں اور پیداواری لاگت میں کمی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور سر مایہ کاری کی بھی حوصلہ افز ائی کی گئی ہے۔کمرشل وہیکلز پر کسٹم ڈیوٹی دس فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کردی گئی ہے ہر قسم کی بیج کی درآمد کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہوگی صنعتی شعبے کے لئے آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا بجٹ میں پچاس ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے تیس ارب روپے رکھے گئے ہیں بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے اگر وہ پراپرٹی خرید یں گے تو اس کے لیے ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے موجودہ حکومت نے بجٹ 24-2023 میں مزدوروں کی تنخواہ سے متعلق ایک اچھا فیصلہ کیلئے ہے وفاقی کابینہ نے مزدور کی کم سے کم تنخواہ بتیس ہزار کرنے کی منظوری دی ہے اسی طرح گریڈ ایک سے سولہ تک کے سرکاری ملاز مین لئے پینتیس فی صد جبکہ گریڈ سترہ سے بائیس تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں تیس فی صد اضافے کی تجویزدی ہے اگر موجودہ مہنگائی کے تناسب سے دیکھا جا ئے توچھوٹے سے چھو ٹے خاندان کا تیس ہزار روپے میں گزارہ نا ممکن نظر آتا ہے ایک عام مزدور کی تنخواہ مکان کے کرائے اور یوٹیلیٹی بلوں میں ہی خرچ ہو جاتی ہے جبکہ بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنا تو آسمان کو چھونے کے مترادف ہوتا جارہا ہے اگر ہمارے حکمران زمینی حقائق انہیں صحت کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی پنشن کا زیادہ ترحصہ علاج معالجے پر خرچ
ہوجاتا ہے لہذا ان کے اخراجات زیادہ اور آمدنی کے ذرا ئع محدود ہو جاتے ہیں اس لیے حکومت کو چاہیے کہ پنشنروں کی پنشن میں بھی سرکار ی ملازمین کی تنخواہوں کے برابر اضافہ کیا جائے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تیس اور پینتیس فی صد اضافے کی منظوری دینے والی وفاقی کابینہ نے بجٹ میں پنشن میں صرف ساڑھے ستر فی صد اضافے کی منظوری دے کر حاتم طائی کی قبر پر لات ماری ہے اور یہ اقدام بزرگ شہریوں کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہے کیونکہ ریٹائر ملازم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور وہ بھی مہنگائی سے اتنے ہی متاثر ہو رہے ہو رہے جتنے دوسرے طبقات اور سرکاری ملازمین متاثر ہوئے ہیں اور ایک اور مضحکہ خیز بات یہ ہے۔”وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سرکا ری ملازمین کی کم سے کم پنشن دس ہزار روپے سے بڑھا کر بارہ ہزار روپے کی جارہی ہے افسوس کی بات ہے کے کسی کو بھی بزرگ شہریوں کے مسائل پر بات نہیں کی اور وفاقی کابینہ میں بیٹھے سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور وڈیروں کو کسی نے بھی نہیں بتا یا کہ ایک طرف مزدور کی کم سے کم تنخواہ بتیس ہزار روپے مقرر کی جارہی ہے اور دوسری پنشنروں کی کم سے کم پنشن بارہ ہزار روپے مقرر کی جارہی ہے جو کہ سراسر زیادتی اور نا انصافی ہے اسی طرح بجٹ میں ای او بی آئی کی پنشن کو ساٹھ ہزار پانچ سوروپے سے بڑھا کر دس ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے ایک عام انسان بھی اسے حکومت کا عوام کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہی قرار دے رہی ہے کیونکہ طویل عرصہ سے ای او بی آئی کے پنشنروں کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور اب بھی حکومت کی جانب سے پنشن میں منظوری نہیں دی گئی بلکہ صرف تجویز پیش کی گئی ہے جو حکمرانوں کی عوام دوستی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور حکمرانوں سے مراد موجودہ حکمران ہی نہیں بلکہ تمام وہ سیاستدان ہیں جنہیں پنشنروں کے مسائل نظر ہی نہیں آتے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریٹائر ڈ سرکاری ملاز مین ہوں یا ای او بی آئی کے پنشنر ان کے لیے کم سے کم پنشن کی حد تیس ہزار مقرر کی جاتی یقیناً موجودہ بجٹ میں کئی باتیں عوامی مفاد کے مطابق اور بہتر بھی ہیں مگر مزید بہتر اقدامات کی گنجائش موجود ہے اور ان پر یقینا کام ہونا چاہیے اور حکومت کو فی الفور اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں