وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف کے نام کھلا خط

بصد ادب واحترام ایس طاہرہ جمیل مخاطب ہوں تعلق تحصیل گوجرخان سے ہے الحمدللہ اللہ تعالیٰ نے بہترین صحت وتندرستی کے ساتھ خوشیوں بھرے سال جینا نصیب کئے جو میرا قیمتی اثاثہ ہیں گو کہ وہ دن نہیں رہے بلحاظ تعلیم ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہوں مگر بوجہ معذوری اپنے فرائض منصبی ادا کرنے سے قاصر ہوں ہر ذی روح ایک خواب‘خوبصورت سوچ اور جذبہ ایثار وقربانی رکھتا ہے مگر وقت وحالات اتنی اجازت نہیں دیتے، میں نے زندگی اور موت کو بہت قریب سے دیکھا ہے ہر گزرتے لمحے نے بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے کی طرف رخ موڑدیا،اپنے اردگرد موجود لوگوں کی تکالیف،مجبوریوں اور حالات نے لکھنے پہ مجبور کیا معذور افراد بعض اوقات نارمل صحت مند انسانوں سے زیادہ ہمت و حوصلہ اور سمجھ بوجھ رکھتے ہوئے بھی معاشرے پہ بوجھ سمجھے جاتے ہیں جبکہ وہ اپنی محرومی سے لڑتے ہوئے باقی کردار نبھا رہے ہوتے ہیں محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کو مسلم دنیا میں پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا موقع ملا اور انھوں نے اپنے دور حکومت میں خواتین کے مسائل پر توجہ دی اور کچھ قوانین بنائے ان کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی پہلی خاتون چیف منسٹر بننے کا اعزاز آ پکو ملا ہے، آ پ نے صوبے میں طلبہ و طالبات کے لئے تعلیمی میدان میں آ سانیاں کی‘الیکٹرک بس، فری انٹرنیٹ‘ای گاڑی‘ا ی سکوٹی‘ لیپ ٹاپ کی تقسیم اور ملک کے پسے ہوئے طبقے میں فری سولر سسٹم کی سہولت دی اور ناجائز تجاوزات,قبضہ مافیا اور ہراسمنٹ کے حوالے سے جو کام ہو رہا ہے اور سب سے بڑھ کر سیلاب کی پھیلائی ہوئی تباہ کاری میں جیسے عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہیں یہ بہت قابل تعریف کام ہے۔ آ پ کے خدمت خلق کے جذبے کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ گذارشات پیش کرنا چاہتی ہوں اس امید کے ساتھ کہ آ پ نہ صرف سپیشل پرسنز کے مسائل کو سنیں گی بلکہ ضروری اقدامات بھی کریں گی ان شاء اللہ۔ہر طبقے کی اپنی کچھ مجبوریاں ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً اپنے حق کے لئے آ واز اٹھاتے رہتے ہیں مگر معذور افراد کے مسائل بدستور قائم ہیں کیونکہ اس حوالے سے کسی نے بھی منظم ہو کر آ واز بلند نہیں کی اور یوں یہ طبقہ اپنی حیثیت کو تسلیم نہیں کروا سکا آ ج تک معذور افراد کی تعداد کے بارے میں صحیح اعدادوشمار اکٹھے نہیں کئے جاسکے ہیں دیہات اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے بیشمار افراد آ ج بھی نادرا کے ریکارڈ میں شامل نہیں ہیں,ہمارے مسائل بہت زیادہ ہیں جیسے تعلیم روزگار,میڈیکل قانونی معانت معاشرتی قبولیت وغیرہ، ان سب مسائل کی وجہ ریاست کی عدم توجہی ہے پہلے آ نے والی حکومتوں نے اس مسئلے کو درخور اعتناء نہیں سمجھا، اس مسئلے کو اگر ہمارے منتخب کردہ نمائندے اسمبلی میں پیش کرتے تو یقیناً اس بارے میں ضرور پالیسی ترتیب دی جاتی خیر اتنا کہوں گی کہ”مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم“ہماری آ واز سن لی جائے تو ہم سمجھیں گے کہ اس جدوجہد میں اپنے حصے کی شمع روشن کردی ہے اور آ نے والے وقت میں روشنی ضرور پھیلے گی ان شائاللہ، آ نے والی نسلوں کے لیے ضرور آ سانیاں ہوں گی محترمہ ہم آ پ سے اپیل کرتے ہیں کہ آ پ ہمیں برابر کے شہری ہونے کا حق دیں ہم معاشرے کے معزور شہری کہلانے کی بجائے برابر کے شہری کہلائیں ہماری عزت نفس مجروح نہ ہو، ہماری پہچان ہماری معذوری نہیں ہماری تعلیم‘ہمارا ہنر ہو،یہ درخواست امید کی ایک کرن ہے،کچھ مسائل آ پ کے گوش گزار کر رہی ہوں۔مسئلہ نمبر 1۔ پنجاب میں مردم شماری کے مطابق 44 لاکھ 87ہزار 038 افراد ہیں جبکہ نادرا کے ریکارڈ میں صرف تین لاکھ 81ہزار 558 افراد نے معذوری سرٹیفکیٹ بنوایا ہے باقی افراد نے سرٹیفکیٹ بنوانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے انکو فائدہ نہیں ملے گا اگر گزشتہ ادوار میں کوئی سہولت دی جاتی تو وہ کسی طرح تگ ودو کر کے سرٹیفکٹ بنوا لیتے اور نادرا کے ریکارڈ میں بھی آ جاتے،دوسری بڑی وجہ رجسٹریشن کا پیچیدہ نظام ہے، حکومت پنجاب نے رجسٹریشن کے لیے جو ایپ متعارف کروائی ہے اس میں ہدایات واضح نہیں ہیں مثلاً ای میل ایڈریس شناختی کارڈ پہ بنانا ہوتا ہے اور پاس ورڈ مخصوص انداز میں داخل کرنا ہوتا ہے ایپ میں یہ و ضاحت نہیں کی گئی،جس کی وجہ سے عام افراد لاگ ان نہیں کر پاتے اور تصدیق کا نظام رک جاتا ہے، پنجاب حکومت نے یہ نہیں کہا کہ رجسٹریشن پرائیویٹ دکان یا نیٹ کلب سے اندراج کروایا جائے مگر زمینی حقائق مختلف ہیں،بیت المال کے مقامی ملازمین نے اس عمل کو پرائیویٹ دکانوں کے سپرد کر رکھا ہے، ان پہ ایک ایک صفحے کی فیس سو سے ڈیڑھ سو روپے لی جا رہی ہے، اس طرح یہ افراد مالی بوجھ تلے دبتے جا رہے ہیں، یہ حکومت پنجاب کے اپنے منشور Punjab Empowerment of persons disabilities Act 2022 کی صریح خلاف ورزی ہے جس کے تحت حکومت پر لازم ہے کہ وہ معزور افراد کو باعزت اور مفت سہولیات مہیا کرے، ان حالات میں ضروری ہے کہ حکومت پنجاب مخصوص ٹیمیں تشکیل دے جو معزور افراد کا طبی معائنہ کر کے معزوری سرٹیفکیٹ کے لئے اہل قرار دے کر متعلقہ ادارے سے سرٹیفکیٹ بنوا کر ان کے حوالے کریں، مسئلہ نمبر 2،میڈیکل کے لئے‘معذور افراد کے لیے ہسپتال جانا بعض اوقات بہت مشکل ہی نہیں کبھی کبھی ناممکن ہوتا ہے،ان کے لئے عام ٹرانسپورٹ سے سفر ممکن نہیں ہوتا،کوئی بیٹھ نہیں سکتا اور کہیں کوئی بٹھانے ساتھ لے جانے والا نہیں، کہیں ایمبولینس کے بنا سفر ممکن نہیں، اور ایمبولینس کا خرچہ قابل برداشت نہیں، کبھی لمبا فاصلہ اور اخراجات راستے میں حائل ہو جاتے ہیں،ایسے میں اگر حکومت تعاون کرے تو تمام افراد کی رجسٹریشن ممکن بناء جا سکتی ہے اور کوئی بھی معزور فرد اپنے معزوری سرٹیفکیٹ اور علاج سے محروم نہیں رہے گا۔

ایس طاہرہ جمیل