وزیراعظم اپنے وزراء اور مشیروں کا احتساب کریں

کچھ عرصہ قبل پانامہ لیکس کا ایک شور اٹھا، جو کئی ممالک کے سربراہان کو لے ڈوبا جن میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف بھی تھے۔ اس وقت موجودہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے خوب شور مچایا اور اتنا پروپیگنڈا کیا کہ جیسے ملک کے تمام مسائل ہی پانامہ لیکس اور بالخصوص ان میں نواز شریف کا نام آنے سے پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے سب کے خلاف کاروائیوں کا کہا لیکن نواز شریف کی فراغت کے بعد انہوں نے کسی کے خلاف آواز بلند نہیں کی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقصد فقط نواز شریف کے خلاف پروپیگنڈا کرنا تھا۔ بہر حال اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے پانامہ لیکس کے باقی کرداروں کے خلاف کاروائی کا اعلان کیا اور وہ پھر وہی ہوا جو ان کے دیگر تمام اعلانات کے ساتھ ہوتا آیا یعنی کوئی بھی پورا نہیں ہوا تو یہ کیسے ہوتا؟ البتہ چیخیں نکلوانے والے اعلان پر وہ ابھی تک سختی سے کار بند ہیں اور مسلسل چیخیں نکلوا رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کی محنت کا رخ بدل گیا ہے کہ انہوں نے سیاستدانوں کی چیخیں نکلوانی تھیں لیکن اب وہ عوام کی نکلوا رہے ہیں لیکن نکلوا تو رہے ہیں۔ 
پانامہ کا شور تھما ہی تھا کہ پنڈورا لیکس نے ایک بار پھر سوئے ہوئے مسئلے کو جگا دیا۔ اب اس میں کپتان کی ٹیم کے کارنامے بھی سامنے آگئے ہیں۔ ان کے ارد گرد رہنے والے بہت سے سینئر لوگ اور وفاقی وزراء اس میں ملوث ہیں۔ وزیراعظم نے پنڈورا لیکس کے انکشافات کے بعد ایک اجلاس بھی طلب کیا لیکن ہونا وہی ہے جو پہلے ہوتا چلا آرہا ہے۔ احتساب کے ساتھ کیا ہوا کتنے لوگوں کا احتساب ہوا اور کتنے افراد کے خلاف کاروائیاں ہوئیں؟ کتنے لوگوں سے لوٹی ہوئی رقم واپس لی گئی اور کتنی رقم بیرون ممالک کے اکاؤنٹس سے پاکستان منتقل کی گئی؟ بس شور مچا مچا کر عوام کو بے وقوف بنانے کا ڈرامہ ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ اپنے ارد گرد انتہائی کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں لیکن یہ پروپیگنڈا کرنے میں اتنے ماہر ہیں کہ کرپشن کے ثبوت سامنے آنے کے باوجود دوسری جماعتوں کے خلاف پروپیگنڈا کر کے ان کے رہنماؤں کو ہی کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اب بھی انہی کے خلاف شور مچا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ رہنے والے وہی لوگ ہیں جو پہلے دیگر جماعتوں میں رہے، ان جماعتوں میں رہتے ہوئے وہ کرپٹ اور نااہل تھے لیکن جب ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کی تو ان کے سب پاپ دھل گئے اور وہ پاک صاف ہو گئے ہمارا تو یہ مطالبہ بھی نہیں ہے کہ مکمل طور پر سب کچھ درست ہو جائے اگرچہ ان کا اپنا دعویٰ نوے دنوں میں سب کچھ درست کر دینے کا تھا لیکن ایک ہزار نوے دن گزر چکے ہیں پھر بھی کچھ درست نہیں ہوا، سب کچھ درست نہ ہو صرف درست سمت کی طرف گامزن ہی ہو جائے، اس درستگی کی ابتدا ہی ہو جاتی لیکن یہ تو غلط سمت تیز رفتاری سے گامزن ہے۔ نہ جانے اتنی بڑی وزیروں اور مشیروں کی فوج کر کیا رہی ہے جس نے کوئی مشورہ ہی نہیں دینا اس کا کیا کام ہے؟ اور اگر مشورے دیتے ہیں تو کیا دیتے ہیں؟ کیا ان پر عمل نہیں ہوتا، اگر ان پر عمل نہیں ہونا تو پھر ان کا کیا فائدہ؟ اور اگر عمل ہوتا ہے تو وہ دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ 

وزیراعظم عمران خان امیر ملکوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ غریب ممالک سے لوٹا گیا پیسہ امیر ممالک میں چھپانے کی حوصلہ شکنی کریں لیکن وہ اپنے ساتھیوں پر زور نہیں دیتے کہ وہ ملک سے پیسہ لوٹ کر امیر ممالک میں نہ چھپائیں۔ یہ تو نہایت احمقانہ مطالبہ ہے کہ کسی کو کہیں کہ تم اپنا فائدہ نہ حاصل کرو۔ امیر ممالک کو اس کی کیا ضرورت ہے کہ وہ اس کی حوصلہ شکنی کریں گے ان کا تو اس میں فائدہ ہے بلکہ یہ امیر ممالک تو نہایت لالچی اور خودغرض ہیں انہوں نے خود غریب ممالک کو کالونیاں بنا کر لوٹا اور ان کی دولت پر ترقی کی۔ اب بھی غریب ممالک کے کرپٹ لوگ اپنی بے تحاشا دولت جب ان ممالک میں بھیجتے ہیں تو ان ممالک کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ تو وہ اس کی حوصلہ شکنی کریں گے یا حوصلہ افزائی؟اگر زور دینا ہے تو اپنے ممالک کے لوگوں پر دیں اس کا نظام درست کریں خاص طور پر اپنے دوستوں اور اپنی کرپٹ ٹیم کو درست کریں تاکہ وہ اس ملک سے دولت ہی نہ لوٹیں اور امیر ممالک میں نہ چھپائیں۔ اب تو احتساب بھی آسان ہو چکا ہے کہ جن لوگوں کے نام پنڈورا لیکس میں سامنے آئے ہیں پہلے تو ان سے حساب لیں کہ انہوں نے کہاں سے پیسہ لایا اور کیسے باہر چھپایا؟ سب سے پہلے تو اپنے بیانیے کے مطابق اپنے وزراء اور مشیروں کا احتساب کریں اور پھر ان سے وہ دولت واپس لیں، اس کے بعد باقی تمام افراد جن کے سامنے آئے ہیں ان کا احتساب کیا جائے اور جنہوں نے غیر قانونی طریقے سے دولت کمائی اور بیرون ممالک کو بھجوائی انہیں عبرتناک سزا دی جائے بلکہ اب تو یہ کرپشن اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس کے چین کی طرح سزائے موت کا قانون نافذ کرنے کی ضرورت ہے، اگر ایسا ہو گیا تو پھر تو ہمارا کوئی سیاستدان زندہ نہیں رہے گا خیر ایسے لوگوں کو زندہ رہنے کا حق بھی نہیں ہے جو ملک کے لیے ناسور بن چکے ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں