کالم

وزراء کے لیے بھی کچھ حدود و قیود مقرر کیجیے

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اپوزیشن حکومت پر نکتہ چینی تو کرے لیکن اس کی حدود و قیود ہوتی ہیں۔ ان کی بات بالکل درست ہے کہ اپوزیشن کا کام بلکہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرے اور انہیں روکنے کی کوشش کرے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ کام ایک دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے سر انجام دے۔ جب بھی کوئی کام حدود سے تجاوز کرتا ہے چاہے وہ کتنا ہی اچھا اور نیک کیوں نہ ہو، وہ بجائے فائدے کے نقصان کا باعث بنتا ہے، یوں وزیر خارجہ صاحب کا بیان اپوزیشن کی حد تک تو درست ہے لیکن ان سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ اپوزیشن تو حدود و قیود میں رہتے ہوئے حکومت پر نکتہ چینی کرے تو کیا ایسی کچھ حدود و قیود حکومت کے لیے بھی ہیں یا وہ تنقید میں تمام تر حدود سے آزاد ہے؟ کیونکہ ہم نے تو وفاقی وزراء کو جو زبان استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے اس سے قبل تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ چند روز قبل کی ہی بات ہے کہ ایک وفاقی وزیر پر کشمیر میں پابندیاں عائد ہوئیں اس کی وجہ کیا تھی؟ اس کی چند وجوہات تھیں جن میں سے ایک بڑی وجہ ناشائستہ الفاظ کا استعمال بھی تھی۔ وہاں انتخابات سے قبل تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے جلسے کیے جن میں اپوزیشن جماعتیں بھی تھیں لیکن ان میں سے کسی کے رہنماؤں کو کشمیر سے نکل جانے کا حکم نہیں ملا اور نہ ہی ان پر کشمیر میں جلسے جلوس اور تقاریر پر پابندی عائد ہوئی۔ یہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ہی تھے جنہیں کشمیر سے نکل جانے کا حکم ملا اور ساتھ ہی ان کے جلسوں اور تقاریر پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ ان کی قیادت کو اپوزیشن کے لیے حدود و قیود مقرر کرنے کی تو فکر ہے لیکن اپنے ساتھیوں کے لیے ایسی کسی حد کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں پر تنقید کرنے میں تمام تر سیاسی، پارلیمانی، تہذیبی و اخلاقی حدود کو پامال کر دیا ہے۔ ان کی تقاریر میں اور ہوتا بھی تو کچھ نہیں ہے سوائے اپوزیشن رہنماؤں پر تنقید کے۔    حکومت کے وزراء اور مشیران کی تقاریر اور پریس کانفرنسیں تقریباً پوری کی پوری اپوزیشن پر تنقید اور انہیں چور چور کہنے پر مشتمل ہوتی ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ان کی اصل ذمہ داریاں کیا ہیں؟ انہوں نے کس موقع پر کیا گفتگو کرنی ہے اور کس سے کیسے انداز میں بات کرنی ہے؟ بس دوسروں کو چور چور کہہ دینے سے آپ کی ذمہ داریاں ختم تو نہیں ہو جاتیں، آپ کو کچھ کر کے دکھانا ہو گا، اپنے لیے نہیں اس ملک و قوم کے لیے۔ اب سب کو معلوم ہو چکا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں چور ہیں، انہوں نے کرپشن کی ہے، وہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں جب تک وہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار نہیں کرتے تب تک ان کے یہ گناہ دھل بھی نہیں سکتے۔ ان کی گرفتاریاں بھی ہوئیں، وہ جیلوں میں بھی رہے، ان پر کچھ ثابت بھی نہ ہو سکا اس کے باوجود وہ چور اور کرپٹ ہیں۔     یہ سب کچھ عوام کو معلوم ہے اور عوام بھی اب حقیقت حال جان چکے ہیں اس لیے اب صرف الزامات سے کام نہیں چلے گا بلکہ عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کے لیے آپ کو عوامی مسائل کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا ہوگا۔ مہنگائی اور بیروزگاری کو ختم کرنا ہو گا۔ ملک کو قرضوں کی دلدل سے نکال کر معیشت کو مضبوط کرنا ہوگا۔ تقریریں تو سبھی کر لیتے ہیں بلکہ یہ تو ہماری سیاسی روایت ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد تقریریں خوب کرو عوام کو سنہرے خواب دکھاؤ، ان تقریروں میں مستقبل کے بارے میں پیشگوئیاں کرو، مختصر یہ کہ

عوام کو تقریروں اور سہانے خوابوں میں الجھائے رکھو، عوام اسی خوشی میں پانچ سال گزار دیں کہ اب حالات درست ہونے والے ہیں اور اب سب ٹھیک ہونے والا ہے۔ پہلے بھی یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے لیکن حکومتوں نے کسی حد تک کام بھی کیے لیکن اب کی بار تو سب کچھ ہی نیا ہے وہ اس طرح کہ صرف اپوزیشن پر تنقید کرو اور بس کرتے ہی چلے جاؤ۔ دوسروں کو خوب برا بھلا کہو، جس کے لیے کوئی حدود و قیود نہیں ہیں۔ تمام حدود و قیود اپوزیشن کے لیے ہیں حکمران جماعت تمام حدود سے بالا تر ہو کر تنقید کرے اور ساتھ یہ خواہش بھی رکھے کہ ہمیں اس کا جواب نہ ملے۔ ایسے کام نہیں چلتا، اس طرح تو آپ عوام میں اپنی مقبولیت کھو دیں، آپ اگر پریس کانفرنسیں کرنا اتنا ہی ضروری سمجھتے ہیں تو ان میں عوام کو اپنی پالیسیوں کے بارے میں بتائیں عوام کو بتائیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں اور مزید عوام کے لیے کیا کرنا چاہتے ہیں، یہ ضروری تو نہیں ہے کہ پریس کانفرنس میں دوسروں پر تنقید ہی ہو وہ بھی نازیبا الفاظ میں بلکہ کچھ اچھے کلمات بھی پریس کانفرنس میں ادا کیے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ اپوزیشن کے لیے حدود و قیود کے قائل ہیں تو ذرا اپنے ارد گرد بیٹھے ساتھیوں کے لیے بھی کچھ حدود و قیود مقرر کریں تاکہ عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔

admin

Recent Posts

مسرت شیریں کے نام ایک شام

اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے ہال میں اس وقت ایک دلکش اور یادگار منظر…

5 hours ago

*کشمیری بہن بھائیوں کے حقوق کے محافظ ہیں اور رہیں گے: وزیراعظم

راولپنڈی (نامہ نگار سید قاسم) وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر میں مذاکرتی عمل کی…

9 hours ago

معذور افراد کو محض ہمدردی کے مستحق نہیں بلکہ بااختیار شہری تسلیم کیا جائے

معاشرتی انصاف اور مساوی حقوق کے لیے کی جانے والی ہر جدوجہد کی طرح، معذوری…

9 hours ago

ٹرمپ کا امن منصوبہ: گریٹر اسرائیل کی طرف ایک بڑا قدم

عالمی چوہدری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پرانی مسلم دشمنی اور یہود دوستی کا…

12 hours ago

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کلرسیداں میں خصوصی “زیرو ویسٹ صفائی آپریشن”

کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کلرسیداں میں خصوصی "زیرو…

12 hours ago

موضع انچھوہا میں بجلی چوری پکڑی گئی، مزاحمت اور بدسلوکی پر مقدمہ درج

کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) آئیسکو کی کارروائی موضع انچھوہا میں بجلی چوری پکڑی گئی، مزاحمت…

12 hours ago