وزراء بیان بازی کی بجائے اپنے محکموں پر توجہ دیں

ضیاءالرحمن ضیاء/چند روز قبل 20ستمبر کو پیپلز پارٹی کی میزبانی میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس ہوئی جس میںتحریک انصاف کی حکومت پر کڑی تنقید کی گئی اور اس حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرنے پر غور ہوا ۔ اس اے پی سی کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانات دیے اور کہا کہ اس حکومت کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے اپوزیشن جماعتوں نے اس بار حکومت کے خلاف سخت فیصلے کی جن پر عملدرآمد سے روکنے کے لیے حکومت نے اداروں کو متحرک کر دیا اور اے پی سی میں شریک تمام رہنماو¿ں کے خلاف مقدمات بننے لگے اور کسی پر فرد جرم عائدکی گئی تو کسی کو گرفتار کر لیا گیااسی طرح آصف علی زرداری پر بھی پرانے مقدمات میں فرد جرم عائد کر دی گئی ہے ، مولانا فضل الرحمن جو ابھی تک نیب کی پکڑ سے دور تھے ان پر بھی الزامات عائد کر دیے گئے ہیں اور ان کی طرف بھی دست نیب دراز ہونے لگا ہے اور نواز شریف جو علاج کی غرض سے لندن گئے تھے انہیں بھی مفرور قرار دینے اور گرفتار کرنے کے لیے کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ اس ساری صورتحال سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ احتساب کے نام پر کیا چل رہا ہے ؟ یہ احتساب اس وقت ہی کیوں تیز ہوتا ہے جب اپوزیشن جماعتیں حرکت میں آتی ہیں ، جوں ہی اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف سخت ایکشن لینے کی کوشش کرتی ہیں ہمارے ادارے متحرک ہو جاتے ہیں اور حکومت مخالف جماعتوں کے رہنماو¿ں کو نوٹس ملنے شروع ہو جاتے ہیں اور کہیں کہیں گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جاتی ہیں لیکن بعد میں ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے ان کی ضمانتیں ہو جاتی ہیں۔ ہر وقت اپوزیشن جماعتوں پر تنقید حکومتی وزراءکی عادت بن چکی ہے جس کی وجہ سے وہ حکومتی امور میں دلچسپی نہیں لیتے یا اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں اور اداروں کو ان کے پیچھے لگائے رکھتے ہیں تاکہ اپوزیشن رہنما ان اداروں سے خوفزدہ رہیں اور حکومت کی کسی بھی غلطی کی نشاندہی کیے بغیر خاموشی سے دیکھتے رہیں ۔یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ ا س میں حکومت کے مخالف ایک اپوزیشن بھی ہوتی ہے جس کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی نشاندہی کرے یا اسے کوئی بھی ایسا کام کرنے سے روکے جو ملک و قوم کے لیے فائدہ مند نہ ہو یا قومی مسائل کے حل میں حکومت کا ہاتھ بٹائے ۔ اگر اپوزیشن جماعتیں اپنی یہ ذمہ داری پوری نہ کریں تو وہ نااہل سمجھی جاتی ہیں اور انہیں اپنے کام سے غافل قرار دیا جاتاہے ۔ اس لیے اپوزیشن جماعتوں پر لازم ہے کہ وہ حکومت کی تمام حرکات پر نظر رکھیں اور کہیں کوئی کمی کوتاہی پائی جائے تو اس کی نشاندہی کریں اسے عوام کے سامنے لائیں اور حکومت کو روکنے کے لیے دباو¿ ڈالیں ۔ اگر اپوزیشن جماعتوں کو ایسا کرنے سے روکا جائے تو یہ جمہوریت دشمنی خیال کی جاتی ہے بلکہ جہاں اپوزیشن جماعتیں اپنے کام کے لیے آزاد نہ ہوں اور حکمران جماعت کے فیصلے ہی حرف آخر سمجھے جاتے ہوں اور اپوزیشن پر خاموش رہنے کے لیے دباو¿ ڈالا جاتا ہو ، اسے حکومت کے خلاف بولنے کی اجازت نہ ہو تو ایسے ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ آمریت نما جمہوریت یا جمہوریت نما آمریت ہوتی ہے ۔ ایسی ریاست میں پھر وہی ہوتا ہے جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے کہ کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہوتا حکومت کے تمام فیصلے ملک و قوم کے لیے مضر ہوتے ہیں ، ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جاتا ہے اس لیے کہ فرد واحد یا ایک جماعت ایسی نہیں ہو سکتی جس کے تمام فیصلے درست ہوں اور اس سے غلطی کا ارتکاب نہ ہوتا ہو ، غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے لہٰذ احکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کے لیے ہی تو اپوزیشن بنائی جاتی ہے تاکہ وہ حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کرے اور حکومت کو اپنا فیصلہ درست کرنے پر مجبور کرے ۔ ہمارے ملک میں اپوزیشن کو خوب دبایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے حکومت کے فیصلے درست نہیں ہیں اور نہ ہی قومی مسائل کے حل کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو کردار ادا کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں نے جلسے جلوس کرنے کا عندیہ دیا تو حکومت نے بہت سے وفاقی وزراءجن کے پاس اہم وزارتیں ہیں ، کو اپوزیشن کی حرکات پر نظر رکھنے کا ٹاسک دے دیا ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپوزیشن کی حرکات پر نظر رکھنے میں مصروف ہوں گے تو ان کی اپنی وزارتوں پر کون رظر رکھے گا؟ وہ تو پہلے ہی وزاتوں کے انتظام و انصرام کے لیے نااہل ہیں اب انہیں مزید ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئیں تو پھر ان محکموں اور وزارتوں کا کیا بنے گا؟ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کو اپنا کام کرنے دے اور وفاقی وزراءاپنا کام کرتے رہیں ، اپوزیشن کی حرکات پر نظر رکھنے کی بجائے اپنے اپنے محکموں پر نظر رکھیں گے تو تب ہی ملک کا نظام درست سمت چل پائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں