واقعہ کر بلا اور اس کا پس منظر

کر بلا کے میدان میں دس محرم 61ہجری کو نواسہ رسول حضرت امام حسینؑ کو ان کے رشتہ داروں اور ساتھیوں سمیت شہید کر دیا گیا جب حضرت عثمان غنی ؓکی شہادت ہوئی اُس وقت اسلامی خلافت میں دو حصے بن گئے تھے ایک حجاز اور عراق میں حضرت علیؓ کی حکومت جبکہ شام میں حضرت معاویہ کی حکومت تھی۔شام والوں کا یہ مطالبہ تھا کہ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کا قصاص لیا جائے جبکہ حضرت علیؓ کا یہ کہنا تھا کہ شہادت کا کوئی گواہ نہیں ہے اور جو گواہ ہے بھی تو وہ حضرت عثمان غنیؓ کی بیوی ہیں جن کی نظر کمزور تھی اس وجہ سے قاتل کو پہچان نہ پائی اس وجہ سے مسلمانوں کے دو بلاک بن گئے اور سوائے چند صحابہ کے باقی سب میں جنگیں ہوئیں ایسے ہی حالات میں حضرت علیؓ کی شہادت ہوگئی اور خلافت کے لیے ان کے بڑے بیٹے حضرت امام حسین ؑکو چن لیا گیا حضرت علیؓ پر ان کی زندگی میں جان بوجھ کر قصاص نہ لینے کا الزام لگایا گیا تھا اور یہ سب کچھ امام حسنؑ دیکھ رہے تھے کہ جنگ کرنے سے ہم پر غلط الزام ختم نہیں ہو ر ہے اس لئے انہوں نے صلح کر کے حکومت شام والوں کو دے دی حکومت لینے کے بعد حضرت عثمان غنیؓ کے قصاص کے لئے کچھ بھی نہیں کیا گیا اور یوں حقیقت سب کے سامنے آئی۔جب امام حسنؑ نے صلح کرتے ہوئے کچھ شرائط بھی طے کی تھیں اور جب اُس کی شہادت اور پھر حضرت معاویہ کی وفات پر یزید کو خلیفہ چن لیا گیا تو امام حسینؑ نے اس کی بیعت سے انکار کر دیا کیونکہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس کی وجہ سے ان کی بیعت کی جاتی اور بیعت نہ کرنے کی وجہ سے کر بلا کا واقعہ پیش آیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امام حسین کے بیعت نہیں کی تو یزید نے اس بات کو اتنی اہمیت کیوں دی اور پھر اس پر بے شمار ظلم بھی کیے کیا یزید نظر انداز نہیں کر سکتا تھا؟ جواب یہ ہے کہ اس کے ذہن میں چند باتیں ہو سکتی تھیں جن کی وجہ سے اس نے ایسا کیا اول یہ کہ امام حسین نبی اکرم ؐ کے نواسے تھے اُسے پتہ تھا کہ لوگوں کی ان کے ساتھ کیسے عقیدت ہے اس لئے لوگ عقیدت کی وجہ سے اُن کا سا تھ دینے آجائیں گے دوم یہ کہ اس نے امام حسینؑ کی جرات اور بہادری کو دیکھ چکا تھا اُسے پتہ تھا کہ اگر ان کے ساتھ لوگ شامل ہو گئے یہ میری خلافت کا تختہ الٹ بھی سکتے ہیں سوئم یہ کہ وہ دیکھ چکا تھا کہ کوفہ والے حضرت علیؓ کے ساتھ جنگ میں ناکوں چنے چبواتے رہے ہیں اس لئے اگر یہ پھر مقابلے میں آگئے تو میرا تختہ الٹ دیا جائے گا اس لئے اس نے کوفہ شہر میں پہلے کرفیو لگوایا اور پھر امام حسینؑ کے کوفہ پہنچنے سے پہلے شہید کرو ا دیا گیا حضرت حسین ؑکے ساتھ بہتر ساتھی تھے جن میں سے اٹھارہ اہل بیت کے اراکین تھے اس کے علاوہ خاندان نبوت کی خواتین اور بچے بھی شامل تھے واقعہ کربلا صرف تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ عالم کا نادم اور عجیب وغریب واقعہ ہے دنیا میں ہی ایک واقعہ ایسا ہے جس سے عالم کی تمام چیزیں متا ثر ہوئیں آسمان و زمین متاثر ہوئے اور شمس و قمر متاثر ہوئے اس کا تاثر شفق کی سرخی ہے جو واقعہ کربلا کے بعدسے افق آسمانی پر ظاہر ہونے لگی یہ وہ غم انگیز اور لم آفرین واقعہ ہے جس نے جاندار اور بے جان کو خون کے آنسو رلایا ہے اس واقعہ کا پس منظر رسول اکرم اور اولاد رسول کی دشمنی ہے بدر واحد، خندق و خیر میں قتل ہونے والے کفار کی اولاد نے ظاہری طور پر اسلام قبول کر کے اپنے آبا و اجداد کا بدلہ حضرت رسول کریمؐ اور حضرت امیر المومنین کی اولاد سے بدلہ لینے کے جذبات اسلامی کافروں کے دلوں میں عہد رسول ہی سے کروٹیں لے رہے تھے لیکن عدم
اقتدار کی وجہ سے کچھ نہ کر سکتے تھے۔ رسول اکرمؐ کے انتقال کے بعد جب اڑتیس ہجری میں امیر المومنین برسر اقتدار آئے تو ان لوگوں کو مقابلہ کا موقع ملا جو عنان حکومت کو دانتوں سے تھام کر جگہ پکڑ چکے تھے بالآخر وہ وقت آگیا کہ یزید ابن معاویہ خلیفہ بن گیا حضرت علی ؑاور حضرت امام حسنؓ شہید کئے جا چکے تھے عہد یزید میں امام حسین ؑ سے بدلہ لینے کا موقع تھا یز ید نے خلافت پر قبضہ کرنے کے بعد امام حسینؑ کے قتل کا منصوبہ تیار کیا اور ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ حضرت امام حسینؑ کربلا میں آ پہنچے یزید نے اسی ہزار فوج بھجوا کر امام حسین ؑ کو اٹھارہ بنی ہاشم اور بہتر صحابہ کرام سمیت چند گھنٹوں میں شہید کر دئیے حضرت امام حسین کے اٹھائیس رجب ساٹھ ہجری کو مدینہ سے پانی بند کر دیا اور دس محرم کو نہایت بیدردی سے سب لوگوں کو شہید کر ڈالا کر بلا کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا بہت بڑا افسوسناک حادثہ ہے اس واقعہ کی خبر اللہ کے حضور نبی کریم ؐ کو کردی تھی چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہ کو ایک شیشی میں کچھ مٹی دے کر فرمایا تھا کہ یہ اس جگہ کی صبح کی ہے جہاں میرے نواسے حضرت امام حسینؑ کوشہید کیا جائے گا جب وہ شہید ہو گا تو یہ مٹی خون کی طرح سرخ ہو جائے گی کربلا کے واقعے کے وقت حضرت ام سلمہ زندہ تھیں اور جس وقت امام حسینؑ شہید ہوئے یہ مٹی خون کی طرح سرخ اور مائع ہوگئی تھی۔ اسلامی تاریخ کو کسی اور وا قعہ نے اس قدر اور متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کر بلا نے کیا۔ آنحضور ؐ اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کے بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خدا پرستی حرمت، فکر انسان دوستی مساوات‘ اخوت و محبت کا درس دینا تھا نواسہ رسول کو میدان کربلا میں بھوکا پیاسار کھ کر جس بیدردی سے شہید کر کے اُن کے جسم اور سر کی بے حرمتی کی گئی ا خلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب ہے یزید کی نامزدگی اسلام کے نظام شورائیت کی نفی تھی لہذا مام حسینؑ نے جس پامردی اور صبر سے کر بلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیاوہ حرمت،جرات اور صبر و استقلال کی لازوال داستان سے باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق وانصاف کے اصولوں کی بالا دستی حریت فکر اور اللہ کی حاکمیت کا پرچم بلند کر کے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی امام حسین کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب ہے جو پروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے سانحہ کر بلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آ غاز ہے جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لئے تاریخ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی اور کر بلا کا واقعہ وہ تاریخی واقعہ ہے کہ جس نے دین اسلام کے مقدس شجر کی آبیاری کی ہے جو مسلمانوں کی سعادت اور ہدایت کا معیار ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں