واقعہ کربلا اور امت مسلمہ

آصف شاہ،پنڈی پوسٹ/سانحہ کربلا یا واقعہ کربلا 10 محرم 61ھ (بمطابق 680ء) میں عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ جہاں مشہور عام تاریخ کے مطابق اموی خلیفہ یزید اول لعین کی بھیجی گئی فوج نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حسین ابن علیؓ اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔ حسین ابن علی ؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی خواتین و بچے شامل تھے اسلامی نظام حکومت کی بنیاد شورائیت پر تھی۔ آنحضور اور خلفائے راشدین کے ادوار اس کی بہترین مثال تھے۔ حضرت حسن بن علیؓ سے معاویہ بن ابو سفیان نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ کسی کو خلیفہ نامزد نہ کریں گے مگر معاویہ بن ابو سفیان نے یزید کو اپنا جانشین نامزد کرکے اسی اصول دین کی خلاف ورزی کی تھی کیونکہ اسلامی نقطہ حیات میں شخصی حکومت کے قیام کا کوئی جواز نہیں۔ ابھی تک سرزمین حجاز میں ایسے کبار صحابہ اور اکابرین موجود تھے جنہوں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دور دیکھا تھا۔ لہذا ان کے لیے معاویہ بن ابو سفیان کی غلط روایت قبول کرنا ممکن نہ تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے ان ہی اصولوں کی خاطر یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یزید کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ہیں۔ سیر و شکار اور شراب و شباب اس کے پسندیدہ مشاغل تھے لہذا ذاتی حیثیت سے بھی کسی فاسق و فاجر کو بطور حکمران تسلیم کرنا امام عالی مقام کے لیے کس طرح ممکن ہو سکتا تھا واقعہ کرب بلا اسلام کی تاریخ اور رہتی دنیا تک ایسا واقعہ ہے جس کی مثال نہ مل سکی ہے اور تاقیامت نہ مل سکے گی قدرت نے جب کائنات تخلیق کی تو اس میں دو ہی چیزوں کی بنیاد رکھی حق اور باطل اور واقع کربلا اس کا نچوڑ ہے میرے مطابق اگر ہم اپنی زندگی پر نظر دوڑائیں توآج بھی ہمارے ارد گرد کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی روپ میں یزیدیت موجود ہے رب نے جب اس دنیاءکی تخلیق کی اور اپنے پیارے محبوب پر پیاری کتاب نازل کی اور اس میں اصول زندگی وضع کر دیے یہ واقع بہت بعد میں رونماءہواآپ قرآن کو کھولیں اور رب کی حمد شروع کریں تو دولائینیں ہی آپ کے سامنے پورا واقع کربلا کو رکھ دیں آجائے گاکہ امام حسین تشریح اور عملی تفسیر بنی ہے صراط مستقیم کی یعنی وہ راستہ جن پر رب کا انعام ہوا جبکہ کہ یزیدیت نام ہے گمراہی کا باطل کا اور ایسے لوگوں کے رستے جن پر رب کا غضب ہوا ہم ہر سال محرم میں یاد نواسہ رسول جگر گوشہ بتول مناتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم اسے اپنی زندگی میں عملی طور پر لانے سے کیوں قاصر نظر آتے ہیں امام عالی مقام کو کیا چاہیے تھا کچھ بھی نہیں وہ ہستی جو نبی کے کندھوں پرکھلیتی تھی اور جس کے لیے نماز کے سجدوں کو طویل کردینے کا حکم رب کریم دے رہا بھلا کیسے کوئی ان پر وار کر سکتا تھا لیکن رب کعبہ نے دنیاءکو بتلا دیا کہ اگر میں نے حسین کو جنت میں جوانوں کا سردار
بنایا تو اس نے بھی وقت آنے پر وہ کر دکھلایا جو آج تک اور قیامت تک کوئی نہیں کر سکے گا جنکو زندگی میں جنت کی بشارتیں ملی ہوں انہیں کیا ضرورت تھی اپنی اور اپنے بچوں کو قربان کرنے کی یہ ساری مثالیں ہمارے لیے تھی کہ رہتی دنیاءمیں جب بھی حق اور باطل کی جنگ ہو تو حق کے لیے ڈٹ جاو اس کے لیے چاہے تمھیں اپنے بچوں کی قربانی بھی دینی پڑے لیکن کیا آج ہم امام حسین پاک کے حکم عدولی تو نہیں کر رہے ہیں ہمیں دین دنیاءمیں کامیابی کے لیے عملی طور پر اس کو زندگیوں میں لانا ہو گا اور اپنے ارد گرد ہ شعبہ زندگی میں موجود ان یزیدوں کے خلاف آوازحق بلند کرنا ہوگی ،ہمیں امام حسین کی قربانی کے مقصدیت کو سمجھنا ہوگا،اور جس دن یہ بات ہمیں سمجھ آگئی اس دن دنیاءاور آخرت میں ہمیں کامیابی مل جائے گی اور اس دائمی کامیابی کے لیے ہمیں اپنے چھوٹے یزیدتی پیروکاروں کے خلاف آواز حق بلند کرنا ہوگی جو اس معاشرے کے ہر حصہ میں بقدر جثہ موجود ہیں لیکن ہمیں شائید نظر نہیں آرہے یا ان کو دیکھنا نہیں چاہتے اہلبیت کی کی دی جانے والی قربانی کی گرد تک کو نہیں امام عالی مقام کی یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاءکے لیے تاریخ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی اور اس کا اثر تاقیامت آنے والی نسلوں تک رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں