وادی بناہ کے وہ سنہری دن یاد ہیں جب گلی گلی، چوک چوراہوں پر امن اور ہم آہنگی کی فضاء قائم تھی۔ مگر 29 جولائی کی شام نے پورے علاقے کے خواب اُجاڑ دیے اور ایک معصوم جان لے کر ہمیں رنجیدہ کر دیا۔ ننھی تسمیہ کی خون آلود قربانی صرف ایک ذاتی المیہ نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک ہنگامی کال ہے کہ ہم جان لیں کہ انصاف کے بغیر کوئی سماجی سکون ممکن نہیں۔
قاتل ممتاز شاہ کا اقرار جرم ایک مثبت پیش رفت ہے، کیونکہ اس نے تمام شکوک و شبہات کو ختم کرتے ہوئے تفتیشی ٹیم کے کام کو سراہا ہے۔ اس اعتماد کی وجہ سے لواحقین کو کچھ حد تک امید ہوئی ہے کہ انصاف کا بول بالا ہوگا۔ تاہم، اس مرحلے پر سب سے بڑا خطرہ منفی اور غلط پروپیگنڈے کا ہے جو سوشل میڈیا خاص کر فیس بک پر چلائے جا رہے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا نہ صرف خاندان کو ہراساں کر رہا ہے بلکہ کہیں کہیں بے گناہ افراد بھی اس کی زد میں آ رہے ہیں، جو انصاف کے عمل کو نقصان پہنچانے والا ہے۔
ایسے میں قانون کی بالادستی کا درس دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ انصاف کے راستے میں سستے دام پر بکنے والے عناصر بھی ہوتے ہیں جو اپنی ذات کی خاطر حقیقت کو مسخ کر کے فتنہ فروشی کرتے ہیں۔ ان کی سرگرمیوں کو روکنا اور سخت قانونی کارروائی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ نہ صرف قاتل کو عبرتناک سزا دی جا سکے بلکہ پس پردہ طاقتوں کو بھی بے نقاب کیا جا سکے۔حکومت کا کردار اس سنگین وقت میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ انصاف کی فراہمی کے عمل کو تیز اور شفاف بنائے۔ عدالتی عمل کی تاخیر عوام کے اعتماد کو مجروح کرتی ہے اور ملک کی عدالتوں کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ اس لیے عدالتوں کو چاہیے کہ وہ ایسے مقدمات میں خصوصی توجہ دیں اور گرفتار ملزمان کو جلد از جلد سزا دلائیں تاکہ معاشرے میں یہ پیغام جائے کہ جرم کی کوئی گنجائش نہیں۔علاوہ ازیں حکومت کو چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مکمل خودمختاری دے تاکہ وہ آزادی سے کام کر سکیں اور سیاسی دباؤ یا کسی بیرونی اثر و رسوخ سے آزاد رہیں۔ اگر حکومت انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہی تو سماجی بے چینی اور احتجاج مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں جو عمومی امن و امان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ایک اور اہم پہلو قانون کی تعمیل کے لیے عمومی آگاہی مہمات کا انعقاد ہے۔ حکومت، مذہبی و سماجی تنظیموں کو مل کر رول ادا کرنا ہو گا تاکہ عوام میں انصاف، قانون کی پابندی اور نفاذ کے متعلق شعور بیدار کیا جا سکے۔ یہی طریقہ ہے جس سے معاشرتی برائیوں خصوصاً جرائم میں کمی آ سکتی ہے۔ہمارے ہاں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ عدالتوں کی طویل کارروائیاں، شواہد کا فقدان یا سیاسی مداخلت کے سبب مقدمات سست روی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کڑے وقت میں اس مسئلے کو حل کرنا حکومت اور عدلیہ دونوں کی ذمے داری ہے۔ تیز اور مؤثر عدالتی نظام نہ صرف انصاف کو یقینی بنائے گا بلکہ عوام کے دلوں میں حکومت اور قانون پر اعتماد بھی بڑھائے گا۔
آج وادی بناہ جس مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے، اس میں ہر فریق—گھرانے سے لے کر عدالت، پولیس، حکومت اور میڈیا تک—کو اپنا کردار بخوبی نبھانا ہو گا۔ قاتل کو سخت سزا دینا اور انصاف کے عمل کو ہر سطح پر شفاف بنانا لازم ہے تاکہ انصاف کے سوتے بند نہ ہوں اور معاشرے میں امن قائم رہے۔
آخر میں، وادی بناہ کے اس المناک واقعے نے ہمیں ایک بار پھر یہ باور کروایا ہے کہ پولیس کی مؤثر کارکردگی، عدالت کی بروقت کارروائی اور حکومت کی سنجیدہ سیاسی عزم کے بغیر انصاف کا حصول ممکن نہیں۔ اسی طرح عوام کو بھی چاہیے کہ وہ مثبت رویئے اپنائیں، منفی پروپیگنڈے سے بچیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں تاکہ انصاف کا چراغ ہر گھر روشن رہے۔
اب وقت ہے کہ ہم سب مل کر قاتل ممتاز شاہ کو عبرتناک سزا دلوائیں اور اپنی وادی کو جرائم سے پاک بنائیں، تاکہ آئندہ نسلیں امن کی فضا میں پل سکیں۔*
قاتل ممتاز شاہ نے جرم کا اعتراف کر دیا ہے، جس سے تمام شکوک و شبہات ختم ہو گئے ہیں، لیکن اب سوشل میڈیا پر پھیلایا جانے والا منفی اور غلط پروپیگنڈا خاندان سمیت بے گناہ افراد کو نشانہ بنا رہا ہے، جو انصاف کے عمل کو متاثر کر سکتا ہے۔ ایسے نازک وقت میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے۔
ممتاز شاہ پر درج کی جانے والی سنگین دفعات میں قتلِ عمد (سیکشن 302 پاکستان پینل کوڈ)، زنا بالجبر (سیکشن 375 اور 376)، لاش کی مسخ شدہ حالت میں مداخلت (سیکشن 201)، فرار اور تفتیش میں رکاوٹ ڈالنا، اور بچوں کے تحفظ کے لیے وضع کیے گئے خصوصی قوانین شامل ہیں۔ یہ دفعات قاتل کو سخت ترین سزا دلوانے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔
حکومت اور عدلیہ کا کردار اس وقت انتہائی اہم ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پولیس اور تحقیقاتی اداروں کو مکمل خودمختاری دے تاکہ انصاف کی راہ میں کوئی سیاسی یا غیر قانونی رکاوٹ نہ آ سکے۔ عدلیہ کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے مقدمات میں فوری کارروائی کرتے ہوئے سخت سزائیں دے تاکہ یہ پیغام جائے کہ معاشرہ جرم کے لیے کسی کو معاف نہیں کرے گا۔
اس کے علاوہ، حکومت کو عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے مربوط مہمات چلانی ہوں گی تاکہ لوگ قانون کی پاسداری کریں اور منفی پروپیگنڈے سے بچیں۔ اس واقعے نے واضح کر دیا ہے کہ عدالتوں کی سست روی اور انتظامی لاپرواہی کتنے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
وادی بناہ کے ماتھے پر یہ نوحہ محض ایک غمگین داستان نہیں، بلکہ ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرتا اور ظلم کا راج قائم ہو جاتا ہے۔ ممتاز شاہ کو عبرت ناک سزا دلوانا صرف خاندان کا حق نہیں، بلکہ پورے معاشرے کا تقاضا ہے تاکہ آئندہ ایسی سنگین وارداتوں سے بچا جا سکے۔
طارق محمود آفاقی
اسلام آباد(اویس الحق سے)ضلع راولپنڈی و مری کی مشہور و معروف سماجی شخصیت بانی و…
مری(اویس الحق سے)راولپنڈی،مری،کشمیر ہائی وے(آر،ایم،کے)روڈ جسے جی ٹی روڈ بھی کہا جاتا ہے بروری سے…
مری(اویس الحق سے)ڈپٹی کمشنر مری آغا ظہیر عباس شیرازی کی خصوصی ہدایات پر ڈینگی سے…
دینہ کے نواحی علاقے سید حسین نالہ میں ایک دل خراش سانحہ پیش آیا، جہاں…
اسلام آباد (حماد چوہدری) تھانہ ہمک کی حدود میں آج ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا،…
آصف شاہپاکستان میں پولیس مقابلے اکثر میڈیا کی وجہ سے عوامی توجہ کا مرکز بن…