آج کل وزیر اعظم پاکستان کچھ زیادہ ہی پریشان نظر آتے ہیں کیوں نہ ہوں معاملہ اب بہت بگڑ چکا ہے اور جس طرح ان کا نام لیا جا رہا ہے اور جیسے معاملات اپوزیشن نے بنا دیے ہیں ایسے میں تیسری بار وزیر اعظم بننے والے میاں صاحب کی پریشانی نہ صرف دیکھی جا سکتی ہے بلکہ روز روز قومی ٹی وی پر آ کر سنی بھی جا سکتی ہے معاملہ اتنا زیادہ آسان نہیں ہے جتنا دیکھا جا رہا ہے اور اتنا پیچیدہ بھی نہیں ہے جتنا سمجھا جا رہا ہے لیکن کچھ بھی ہو دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے یہ الگ بات ہے کہ اپوزیشن والے اور شیخ صاحب پوری دال کو ہی کالا بنا کر پیش کر رہے ہیں مگر پیچھے کچھ حکومتی نمائندے بھی نہیں ہیں جو خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنا کر پیش کر رہے ہیں بقول اپوزیشن کے میاں صاحب کی کشتی میں سورا خ ہو چکا ہے مگر ایک بات جو سب سے اہم ہے کہ اس کشتی میں اگر سوراخ ہو گیاہے تو ماضی کی طرح ابھی تک اس میں سے کسی مسافر نے چھلانگ نہیں لگائی بعض چھلانگیں لگانے میں مشہور افراد بھی ابھی تک دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر قائم ہیں اس کی دو وجوہات ہیں ایک یا تو ان لوگوں کو یقین ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے مچائے جانے والے شور میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ وزیر اعظم کو گھر بھیج سکے دوسرا وزیر اعظم کے خاندان پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے فلوقت کوئی بھی مجاز ادارہ نہیں ہے سوائے نیب کے جس کو اگر کام کرنے کی جازت بھی حکومت نے دینی ہے جو کہ حکومت فلوقت دینے کے موڈ میں نہیں ہے اور اگر بوقت ضرورت اس نے اجازت دے بھی دی تو ایک گول مول رپورٹ اسے مل جائے گی جس کا نہ کوءئ سر ہو گا نا پاؤں اس لئے یہ آپشن بھی فلوقت اپوزیشن کے کئے ناقبقبول ہی ہے ایک اور بات یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی مسافر نے کشتی کی صورت حال کا جائزہ لیکر اس میں سے چھلانگ لگا دی تو پھر حکومتی کشتی ایسے خالی ہو گی جیسے آخری سٹاپ پر بسیں خالی ہوتی ہے کیونکہ ہمارے سیاست دانوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہ لوگ تیل اور تیل کی دھار دونوں دیکھتے ہیں اس کی مثالیں اگر ماضی سے لی جائیں تو بہت سے وہ لوگ اس وقت اس ڈوبتی کشتی کو چھوڑ کر جنرل مشرف کے واٹر پروف ٹینک میں سوار ہو گئے تھے آج پھر سے میاں صاحبکے ترجمان بنے نظر آ تے ہیں خیر یہ تو ہماری سیاست کا ایک روشن پہلو رہاہے جس پر پھر کھبی بات ہو گی فلوقت پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم سے یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ خود کو کرپشن سے پاک اور بے گناہ ثابت کریں اس ضمن میں جو نکتہ بہت زور و شور سے اٹھایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ لندن میں مے فیئر کے علاقے میں جو فلیٹس وزیر اعظم کے زیر تصرف رہے ہیں ان کو خریدنے کے لیے رقم کن ذرائع سے کب پاکستان سے بیرون ملک بھیجی گئی۔اس ضمن میں سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ پاناما لیکس کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن اور دیگر ادارے پاکستانی قانون اور دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں کے تحت کس قدر بااختیار ہوں گے یہ تحقیقات مشکل ہیں تاہم ناممکن نہیں اختساب کسی بھی ملک کے لئے اتنا ہی اہم ہوتا ہے جتنا کے جمہوریت مگر ہمارے ہاں خود اختسابی کا رواج نہیں ہے ہر وہ شخص جو کرپشن میں ملوث ہوتا ہے وہ اپنا اختساب کرنے کے بجائے مخالف کا اختساب کرنے کی بات کرتا ہے جیسا کہ اب حکومتی رویہ ہے کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو فیس کرنے کے بجائے ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے اپنے ماضی کے دکھوں کو عوام کے سامنے ایسے پیش کر رہی ہے جیسے وہ بہت ہی مظلوم رہی ہو یہ بات بھی سچ ہے کہ ماضی میں ن لیگ کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا مگر ایسے وقت میں جب آپ الزام شدہ ہوں اور ان الزامات کی تردید کرنے کے بجائے اپنے ماضی کے دکھوں کو عوام میں دیکھا دیکھا کر یہ ثابت کتنے کی کوشش کریں کہ آپ مظلوم ہیں آپ کا ختساب گویا مارئے ہوئے کو مارنے کے مترادف ہے ایسے میں عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ماجرا آخرہے کیا؟ ن لیگ اختساب کی بات تو کرتی ہے مگر خود کا اختساب اسے ا چھا نہیں لگتایہ بات بھی حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر حزب اختلاف کا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو پھر عوامی احتجاج بھی ہوسکتا ہے یہی سوچ کر انھوں نے ہتھ ہولا رکھا ہوا ہے اور فلوقت کوئی بھر پور ایکشن نہیں دیکھا رہے دوسری طرف پوری اپوزیشن جماعتیں متحد ہوتی جا رہی ہیں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کے بقول وہی ضابطہ کار قابل قبول ہو گا جو حزب اختلاف کی جماعتوں کی مشاورت سے بنایا جائے گا اپوزیشن کا موقف ہے کہ جن لوگوں کو الزامات کا سامنا ہے وہ ضابطہ کار نہیں بنا سکتے پہلے حکومت نے اریٹائیرڈ ججوں سے تحقیقات کروانے کا عندیہ دیا تھا بعد ازاں جب اپوزیشن کی طرف سے دباؤ پڑا تو وہ سپریم کور ٹ کے جج کے تحت تحقیقاتی کمیشن بنانے پر تیار ہو گئے اب حکومت نے اس مجوزہ کمیشن کے لئے اعلیٰ عدلیہ کو خط بھی لکھ دیا ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ حکومت پر جب اور دباؤ پڑے گا تو وہ ضابطہ کار تبدیل کرنے پر تیار ہو جائے گی حکومت نے جو ٹی او آرز بنائے ہیں ان میں قرضوں اور مختلف دیگر مسائل شامل کر کے اس کا دائر کار بہت وسیع کر دیا گیا تھا اور عام خیال یہ ہی ہے کہ اس کے نتائج آئندہ دس سال تک نہیں نکلیں والے تھے ۔اور ایسا ممکن ہی نہیں کہ اتنے بڑے گند کو صاف کرنے کے لئے دو تین سال میں ہی نتائج نکل آتے حکومت کی طرف سے اس اعلان کے بعد بعض حلقوں میں یہ بات سنائی دی جانے لگی کہ جس طرح کا کمیشن بنایا جانے لگا ہے وہ عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف ہوگا ۔لیکن اب شاید ماضی کی طرح وہ سب ممکن نہ ہو سکے جو ہوتا رہاہے میاں صاحب کو جس طرح کا ٹف ٹائم کپتان کی طرف سے مل رہا ہے اس طرح کا ٹف ٹائم ماضی میں کسی نے نہیں دیا ہے اور یہ بات ساری عوام جانتے ہیں کہ اگر اس معاملے میں کوئی حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہا ہے تو وہ پی ٹی آئی ہی ہے جو شفاف تحقیقات تک پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی اور یہی جماعت ہے جو میاں صاحب کے لئے درد سر بنی ہوئی ہے اب حکومت کے پا س کوئی بھی دوسرا آپشن نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ ایک آزادخود مختار کمیشن تشکیل دے جو سارے معاملات کا جائزہ لے اور اس رپورٹ کی روشنی میں کوئی بھی ٖفیصلہ کیا جس سکے ۔{jcomments on}
123