ن لیگ کی تقسیم ‘ زمہ دار کون؟/ آصف شاہ

آصف شاہ‘نمائندہ پنڈی پوسٹ
حضرت علیؓ کا قول ہے جس جگہ تمھیں عزت نہ ملے وہاں مت جاو بیشک کھانا سونے کی پلیٹ میں ملے ‘سمجھ دار کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے چوہدری نثار کے دورہ کلر سیداں کی بات کی جائے تو انہوں نے یہ طوفانی دورہ طوفانی موسم میں کیا عوامی رائے کے مطابق یہ شائیدپہلا دورہ تھا جو نہ سیاسی تھا اور نہ عوامی بلکہ یہ دورہ صرف اور صرف اپنے غصہ کو کم کرنے بلکہ منتخب نمائندگان کلر سیداں ایم سی کو کھری کھری سنانے کے لیے تھا جہان یہ دورہ ہوا وہاں اپنے پیچھے بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ گیا وہ سوالات کون کون سے ہیں اور ان کا جواب عوام کے سامنے کیوں نہ دیا گیا اس پر نظر ڈالتے ہیں جب ایم سی کلر کے الیکشن مکمل ہوئے تو کاغذات نامزدگی جمع ہوئے اور دو گروپ سامنے آئے لیکن چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ساتھ ان کے ایم پی اے اور معاونین نے بھی کوئی کوشش نہ کی کہ دو گروپ بننے کی وجوہات کیا تھی اور یہ کیوں ہوا کہ دو گروپ اور وہ بھی 14اور14کے لیکن کسی نے نہ سوچا اورسب اس فلم سے محظوظ ہوتے رہے پھر چوہدری نثار علی خان کے
حکم پر دونوں گروپوں نے خاموشی سے اپنے اپنے کاغذات واپس لے لیے اس کا مطلب تھا کہ سب لوگ چوہدری نثار علی خان کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں جہاں یہ بات وہاں چوہدری نثار علی خان کی سیاست کی ایک خامی بھی سامنے آئی کہ انہوں نے اس بات کی طرف توجہ دینے کی کوشش ہی نہی کی کہ کیا وجوہا ت تھی اور کیا محرکات تھے لیکن وہ اور ان کے معاونین خوش تھے کہ ہمارا سکا چل رہا ہے لیکن اندرونی کہانی یہ تھی کی ایک نہایت ہی محترم ہستی نے ایک،،۔۔،،جو یہاں پر لکھنا مناسب نہیں ہے دی کہ کس کی جرات ہے جو کوئی دوسرا ڈھڑا کاغزات جمع کروائے اس پر وہ گروپ سامنے آیا اور پھر جو کچھ ہوا اس کو ساری زمانے نے دیکھا اب حالات اس جگہ پہنچ گئے کہ تینوں دھڑے اپنی اپنی جگہ خوش ہیں کہ ہم کامیاب ہو گے منتخب چیئرمین شیخ قدوس نے جو چاہا وہ پالیا دوسری طرف توپوں کا رخ عابد زیدی کی طرف کر دیا گیا لیکن ایک بات نہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ کہ حاجی اسحاق گروپ وقتی طور پر ہار کر بھی جیت گیا انہوں نے کلر سیداں کے عوام کو ایک نئی سیاست سے متعارف کروا دیا کہ پارٹی کے اندر رہ کر کوشش کرنااور اپنی وفاداری کو بھی ثابت کرنا شائید یہ ان کا مشن تھا اور وہ عوام کو یہ بات باور کروانے میں کامیاب بھی ہوگئے چوہدری نثا رعلی خان کو کلر سیداں آکر دونوں دھڑوں کو شاباش دینی چاہیے تھی کہ انہوں نے ایک حد تک اپنی بات کو مجھ تک پہنچایا اور مجھے ہی اس بات کااختیا ردیاکہ میں ان کا فیصلہ کروں جب کہ اس بات کے لیے ان سے درخواست کی گی کہ وہ ایم سی کلر کا فیصلہ کریں تو انہوں نے کہا کہ یہ آپ کا کام ہے اور آپ خود کریں کیا عوام اب بھی اس سوال کو جواب پوچھ رہی ہے کہ اس مسلے کو کھڑا کرنے کی وجوہات کواب تک سامنے کیوں نہ لایا جا سکا ایک بات جو عوام کو چب رہی ہے کہ حاجی اسحاقدھڑے کا قصور کیا تھا اور ان سے کیوں نہ پوچھا گیا کہ کس وجہ سے گروپ بنا ان کے کیا تحفظات تھے ان کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہ کی گی نہ چوہدری نثارکی جانب سے اور نہ ہی ان کے کسی کار خاص کی جانب سے کیا وجہ ہے کیا یہ چوہدری نثار کی سیاست تھی یا کوئی اور وجوہات ان کو اب تک سامنے نہ لایا جا سکا اور عوام کے اندر ایک بے چینی موجود ہے کہ کس طرح اصل حقائق سامنے آئیں گے دوسری ایک بات کہ انہوں نے اپنے خطاب میں کہی کہ شیخ قدوس میرے ساتھ ننگی تلوار کی مانند کھڑا رہا تو کیا اس حلقہ میں ان کو وہ ننگی تلوارین نظر نہ آئیں جو 2002سے ان کے ساتھ کھڑی تھی ان میں ایک نام شیخ ندیم کابھی تھا جو لیبر کی سیٹ کے لیے امیدوار تھا لیکن اس کی جگہ ایسے شخص کو بنایا گیا جس کا ن لیگ سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا اس کی وجہ کہ سٹی میں ن لیگ کو شکست کا خوف تھا اور انہوں نے اس کی قربانی دے دی کچھ اور تلواریں جو چوہدری نثار اور ن لیگ کے ساتھ کھڑی تھی لیکن بلدیاتی الیکشن میں ان کو پوچھا تک نہ گیا ان میں یوسی مغل سے چوہدری عامر وسیم کا نام بھی ہے جن کو ٹکٹ نہ دیا گیا یوسی لوہدرہ سے نوید بھٹی کا شمار بھی ان تلواروں میں ہوتا ہے جن کا ذکر بذا ت خود آپ کرتے ہیں اور اگر بات آپ کے فیصلے کی تھی تو چوہدری اخلاق کو آپ کے نام کا غلط پیغام دے کر ہٹایا گیا تو آپ نے کون سا ایکشن لیابات تو تب بنتی کہ آپ حال میں موجود عوام کے سامنے اس کو کھڑا کرتے جو اس میں ملوث تھا لیکن اس سے شائید آپ کے کارخاصوں کو نقصان ہوتا آ پ نے ان کو بھی بچا لیا اور اپنی چوہدراہٹ کو بھی قائم رکھا لیکن اگر قائم نہیں رہی تو منتخب نمائندوں کی عزت نفس جس کو آپ نے اس عوام کے سامنے لاکھڑا کیا جنہوں نے ان کو ووٹیں دیکر ان کو اپنے سر کا تا ج بنایا تھا کہتے ہیں آواز خلق نقارہ خدا اب بھی وقت ہے اپنی سیاست کو صحیح ڈگر پر لائیں اور منتخب نمائندوں کو وہ حق دیں جن کے وہ حقدار ہیں کلرسیداں کا طوفان ختم نہیں ہوا یہ زلزلہ تھا اور اس کے بعد آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری رہے گا او ر آمدہ انتخابات میں عوام وہ کچھ کر سکتی ہے جس کی توقع نہیں کیونکہ آپ نے تو اپنی فتح کے لیے اگلی6 یونین کونسلز کا بھی سروے کروا لیا لیکن تقدیراور قدرت ہر تدبیر کو الٹا سکتے ہیں اور بقول علامہ اقبال،،غیرت ہے بڑی چیز جہاں میں،،،، پہناتی ہے فقیر کو تاج سرداراں ۔ ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں