ن لیگ کامنشور کیاہے ؟

طاہر یاسین طاہر
انتخابات بلاشبہ سر پر ہیں،ہر سیاسی جماعت نئے نعروں اور نئے خوابوں کے ساتھ میدان میں اترنا چاہتی ہے۔بے شک پاکستان کے مسائل یہی ہیں جن کا ذکر ن لیگ نے کر دیا۔پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نے آئندہ انتخابات کے لیے’’ مضبوط معیشت،مضبوط پاکستان اور ہم بدلیں گے پاکستان‘‘ کے نام سے ن لیگ کے انتخابی منشور کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بر سرِ اقتدار آکر دو سال میں توانائی بحران ختم کر دیں گے۔عام انتخابات کے چھ ماہ بعد بلدیاتی الیکشن کرائیں گے اور مزدور کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے تک کر دیں گے ۔نیشنل یوتھ پالیسی کے ذریعے دس لاکھ نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے گا۔دہشت گردی کے خلاف طاقت کے استعمال کے بجائے’’ مؤثر اور ہمہ گیر حکمت عملی‘‘ بنائی جائے گی۔مسلح افواج کے سربراہان کی تقرریاں میرٹ پر کریں گے، دفاعی بجٹ کو پارلیمنٹ میں لائیں گے اور پارلیمنٹ ہی اس کی منظوری دے گی۔ن لیگ کے سربراہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ بر سرِ اقتدار آکر ملکی بر آمدات کو ۱۰۰،ارب ڈالر تک لے جائیں گے اور سرکاری اداروں کی بحالی سے ۵۰۰ ارب روپے سالانہ خسارے پر قابو پائیں گے۔ن لیگ کے صدر نے مزید کہا کہ بلوچستان کے مسئلے پر بامعنی مذاکرات کریں گے،عدالتی طریقہ کار کو مختصر کریں گے ،کراچی میں امن و امان بحال کرنے کے لیے آپریشن ضرور ہو گا اور ہم اقتدار میں آکر نئی خارجہ پالیسی بنائیں گے۔ہمیں اس امر کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستانی معاشرہ ہمیشہ خواب فروشوں کے ہاتھوں یرغمال رہا۔ہم اس امر کو بھی ذہن میں رکھے ہوئے ہیں کہ ن لیگ واقعی ملک میں ’’انقلابی تبدیلی‘‘ کے لیے کوشاں ہے اور اس کی نیک نیتی پر شک کی گنجائش نہیں۔اسی لیے تو انھوں نے مزدور کا خاص خیال رکھتے ہوئے اس کی تنخواہ میں’’ انقلابی اضافہ‘‘ کرنے کی وعید سنائی ۔ دہشت گردوں اور دہشت گردی کے حوالے سے البتہ ن لیگ کی پالیسی میرے لیے کسی حیرت کا سبب نہیں۔ان کایہ کہنا کہ وہ اقتدار میں آکر دہشت گردی کے خلاف طاقت کے استعمال کے بجائے’’ مؤثراور ہمہ گیر حکمتِ عملی بنائیں گے‘‘ ملک میں آئندہ کے منظر نامے کی تصویر کشی بھی ہے۔اپنے گزشتہ کسی کالم میں ،میں نے لکھا تھا کہ وہ وقت بھی آنے والا ہے جب ن لیگ دہشت گردوں سے مذاکرات بھی کر رہی ہو گی اور دہشت گردی کی مذمت بھی۔ اس دوہرے پن کی جھلک ’’کراچی میں آپریشن ضرور ہو گا ‘‘والی بات میں نمایاں ہے۔توانائی بحران کے خاتمے کی نہ صرف دو سالہ ڈیڈ لائن دی بلکہ کہا کہ اس کے خاتمے کے لیے تھر کے کوئلے، سمیت تمام وسائل بروئے کار لائیں گے مگر پاک ایران گیس پائپ لائن ،پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں کتنی مفید ثابت ہو گی؟ ن لیگ کے قائد یہ بات گول کر گئے۔میاں محمد نواز شریف ایک کامیاب بزنس مین ہیں، ہمیں توقع کرنی چاہیے کہ وہ اقتدار میں آکر بر آمدات ۱۰۰، ارب ڈالر تک لے جائیں گے،وہ معیشت کا پہیہ گمانے کے لیے دیگر بہت سے اقدامات بھی اٹھائیں گے مگر جس مسئلے نے پاکستانی معاشرے کو زخم زخم کیا ہوا ہے اس بارے ن لیگ بہت نرم گوشہ رکھتی ہے۔دہشت گردی کا آخری علاج بہر حال ایک بے رحم آپریشن ہی ہوتا ہے۔سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔وہاں کی سیاسی قیادت اس بات پر نہ صرف متفق تھی بلکہ پر عزم بھی، کہ سری لنکن معاشرے کو دہشت گردوں سے نجات دلانی ہے۔ہمارا معاملہ مگر دوسرا ہے،ہماری سیاسی قیادت کا عزم متزلزل ہے۔کیا پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم اور اے این پی کے علاوہ کوئی دوسری جماعت دہشت گردوں کے خلاف کھل کر بولتی رہی؟ اے این پی البتہ انتخابات کے قریب اپنے شہیدوں کا خون ’’معاف‘‘ کرنے کو بالکل تیار بیٹھی ہے۔ہماری سیاسی قیادت انتخابات کے قریب جس طرح دہشت گرد گروپوں کے سامنے ڈھیر ہوتی نظر آ رہی ہے،اور انھیں باقاعدہ ایک سیاسی طاقت تسلیم کر رہی ہے اس سے مستقبل میں امن کے لیے شدید خطرات موجود ہیں۔کیا میاں نواز شریف دہشت گردوں سے مذاکرات کر کے امن قائم کر لیں گے؟اور میاں نواز شریف اگر اقتدار میں آتے ہیں تو کیا دہشت گرد گروہ پاکستانی آئین اور قانون کو تسلیم کر لیں گے؟ہم فیصلہ کن مر حلے میں ہیں۔ شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے حوالے سے ہمیں ایک ہی مؤقف اپنانا ہو گا۔دہشت گردوں کو شکست دیے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت ملکی معیشت کو درست سمت نہیں دے سکتی۔جب دہشت گردی کیخلاف طاقت کے استعمال سے اجتناب کی بات کی جاتی ہے تو اس کا صاف مطلب دہشت گردوں کو یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ ہم آپ کی طاقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ن لیگ کے سربراہ نے جس طرح مزدور کی تنخواہ کے حوالے سے واضح کہا کہ پندرہ ہزار کر دیں گے وہ اسی ولولے کے ساتھ یہ اعلان بھی کریں کہ اقتدار میں آ کر دہشت گردوں کا خاتمہ کر دیں گے۔مگر بات وہی عزم والی ہے،سری لنکن قیادت دہشت گردوں کو شکست دینے کے لیے پر عزم تھی اور ہماری سیاسی جماعتیں کالعدم تنظیموں کے ساتھ انتخابی اتحاد بناتی نظر آتی ہیں۔ ن لیگ کے منشور میں دفاعی بجٹ اور مسلح افواج بارے پالیسی کو دہشت گردی کیخلاف’’ طاقت کے استعمال کے بجائے مؤثر اور ہمہ گیر حکمتِ عملی‘‘ بنائی جائے گی،کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو منشور سمجھ آتا ہے۔بادی النظر میں دہشت گردوں کے لیے پیغام ہے کہ ہم اقتدار میں آ کر اسٹیبلشمنٹ کو نکیل ڈالیں گے اور تمھیں گلے سے لگا کر تمہارے پر امن شہری ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں