ن لیگ سے دلبرداشتہ نبیلہ انعام کی اڑان؟

شہزاد رضا

سیاست دانوں کی زندگی میں اتار چڑھاؤ سیاسی عمل کا حصہ ہوتا ہے ببشتر سیاستدان عوامی مفاد میں کم اور ذاتی مفاد کی خاطر زیادہ پارٹیاں بدلتے ہیں۔الیکشن میں ہار جیت بھی لگی رہتی ہے ۔ بلدیاتی انتخابات میں ضلع کونسل راولپنڈی کے مخصوص نشستوں پرانتخابات میں اکثریتی نشستیں مسلم لیگ ن لے اڑی ۔ تحصیل کلرسیداں کے حصے میں کل 5نشستیں آئیں تین نشستیں ٹکٹ پر مسلم لیگ ن اوردو نشستیںآزاد امیدوار ان نے جیتیں۔ جن میں ایک خواتین کی نشست اور ایک اقلیتی نشست شامل ہے۔ٹیکنو کریٹ کی نشست پریونین کونسل بھلاکھر سے کامران عزیز چوہدری ایڈووکیٹ بلامقابلہ منتخب ہوئے وہ یونین کونسل بھلاکھر کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں اور انہوں نے بطور چیئرمین اس یونین کونسل سے الیکشن میں حصہ بھی لیا تھا جس میں وہ ناکام رہے تھے ۔یونین کونسل گف سے حنا ضمیر پارٹی ٹکٹ پر 5ووٹ اور یونین کونسل غزن آباد سے روبینہ بی بی نے 9ووٹس لے کرخواتین کی مخصوص نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ایوان میں دوسرے نمبر پر رہیں جبکہ اقلیتی نشست کے آزاد امیدوار عنائیت مسیح نے یونین کونسل چوآخالصہ سے ضلعی ایوان میں 22ووٹ لے کر نمایاں کامیابی حاصل کی ۔آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہونیوالی نبیلہ انعام کا تعلق نووارد یونین کونسل بھلاکھر سے ہے انہوں نے مسلم لیگ ن کے پارٹی ٹکٹ کے لیے اپلائی کیا اور پارٹی قیادت کی جانب سے یقین دہانی کے باوجود وقت آنے پر ان سے معذرت کر لی گئی ۔پارٹی قیادت کی طرف سے ’’ناں ‘‘کا جواب ملنے پر انہوں نے بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا جس میں وہ سرخرو ہوئیں اور اس حقیقت کو بالکل بھی نہیں جٹلایا جا سکتا کہ انہیں ملنے والی ووٹس تحریک انصاف کے نمائندوں کی ہی تھیںٍنبیلہ انعام پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں انہوں نے 1990ء سے لے کر 2000ء تک کلرسیداں کے مشہور تعلیمی ادارے میں بطور پرنسپل ذمہ داریاں ادا کیں۔ 2001ء میں تحصیل کہوٹہ سے لیڈی کونسلر منتخب ہوئیں تحصیل کلر سیداں کے قیام کے بعد 2005ء میں ہونے والے انتخاب میں دوبارہ لیڈی کونسلر تحصیل کلرسیداں منتخب ہوگئیں اور ان دونوں ادوار میں وہ تحصیل ایجوکیشن کمیٹی کی چیئرمین پرسن بھی رہیں ا س دوران انہوں نے مظلوم خواتین کو تھانے کچہری سے لے کر گھروں تک کے مسائل میں بھرپور معاونت کی ۔سمجھدار،محنتی اور سیاست میں اپناتشخص قائم کرنے کے حوالے سے انہیں مقامی خواتین اپنے لیے ’’آئیکون‘‘بھی تصور کرتی ہیں مسلم لیگ ن میں ورکر کی حیثیت سے ان کی جد و جہد ناقابل فراموش ہے ۔جنرل الیکشن ہوں یا بلدیاتی انتخابات ورکروں کے ساتھ ساتھ رہیں ۔ہمارے ہاں خواتین کا سیاسی جلسوں میں جانا معیوب تصور کیا جاتاہے لیکن کلرسیداں میں ن لیگ کے ہر جلسے میں بطور پارٹی ورکرنبیلہ انعام واحد لیڈی کے طور پر شریک ہوتی رہیں ۔مخصوص نشستوں کے انتخاب میں پارٹی قیادت کے رویہ سے دلبرداشتہ ہو کر انہوں نے تحریک انصاف کی قیادت سے رابطہ کیا جس پر انھیں مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی اور اسی حمایت نے انہیں ضلع کونسل کی نشست پر کامیاب کرایا۔معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ آئندہ چند دنوں تک یونین کونسل بھلاکھر میں پاکستان تحریک انصاف کاپنڈال سجنے والا ہے جس میں نبیلہ انعام پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کریں گی اور اس جلسہ میں پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت بھی شریک ہو سکتی ہے عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے نبیلہ انعام کو ٹکٹ نہ دئیے جانے کا فیصلہ بالکل غلط تھا اور اس بات کاکریڈٹ پی ٹی آئی نے حاصل کر لیا تحریک انصاف کی کلرسیداں میں پذیرکے حوالے سے دیکھا جائے تو اب تک کوئی بھی بڑا سیاسی اکٹھ کرنے میں ناکام رہی ہے اس کے برعکس چک بیلی خان میں پی ٹی آئی کافی حد تک مضبوط اور متحرک ہے۔اگر پی ٹی آئی کامیاب جلسہ کا انعقاد کرلیتی ہے اور میڈم نبیلہ انعام پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کر دیتی ہیں توٹکٹ کے حوالے سے نبیلہ انعام کونظر اندازکرنا پاکستان مسلم لیگ ن کو بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ اب تک تحریک انصاف کے پاس کلرسیداں میں مضبوط ورکنگ باڈی موجود نہیں ہے جس کا منہ بولتا ثبوت گزشتہ اور حالیہ انتخابات ہیں جن میں پی ٹی آئی کسی ایک بھی یونین کونسل میں اپنے پورے پینل کوایڑھی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود کامیاب نہ کر اسکی اور بلدیہ کلرسیداں کی طرف نظر ڈالی جائے تو صرف ایک سیٹ پاکستان تحریک انصاف جیت سکی ۔گزشتہ دنوں یوم تشکر پر کلرسیداں کی قیادت کوئی بڑا قافلہ لے جانے میں کامیاب نہ ہو سکی دوسری طرف انتظامیہ کی دوڑیں تنظیمی عہدے حاصل کرنے میں لگی ہیں۔آنے والے دن کلرسیداں کی سیاست میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں تحریک انصاف کی قیادت اگر نبیلہ انعام کو راضی کر لیتی ہے تو اس کامطلب یہ ہو گا کہ مسلم لیگ نے تحریک انصاف کی مضبوطی کا بیج اپنے ہاتھوں بویا اور یہ غلام سرور خان و دیگر قیادت کی اب تک کی اس حلقے میں سب سے کامیاب سیاسی چال ہو گی۔دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ ن کے زخمی شیر کو کس حد تک گرانے میں مکمل طور پر کامیاب ہو تی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے لیے یہ کڑا امتحان ہے کہ وہ اپنی وفادار اور ناراض کارکن کو کس حد تک دوبارہ سے پارٹی کی وفاداریاں جگا کر اپنے ساتھ ملا نے میں کامیاب ہوتے ہیں۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں