ن لیگی راہنما انصاف کا طلبگار

مسعود جیلانی
میری اکثر تحریروں سے کئی ن لیگ کے بھائیوں کو محض اس وجہ سے اختلاف ہوتا ہے کہ میں مسلم لیگ ن کے خلاف لکھتا ہوں بات یہ نہیں حقیقت یہ ہے کہ میرا تعلق جناب چوہدری نثار علی خان کے حلقۂ انتخاب سے ہے جو مسلم لیگ ن کے مرکزی راہنماؤں میں سے ہیں اور گذشتہ لگ بھگ30 سالوں سے اقتدار میں ہیںآج تک ان کا کوئی مدِ مقابل انھیں ہرا نہیں سکا وہ اپنی ذمہ داری کس حد تک نبھا رہے ہیں

اس کا جواب خدا کے حضور انھوں نے دینا ہے صحافی ہوے ہوئے میںیہ ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ میں اپنی نظر میں آنے والی کسی بھی زیادتی اور معاشرتی خرابی کو منظر عام پر لاؤں تا کہ ذمہ دار لوگ اس کے ازالے کے لئے کام کریں جناب چوہدری نثار علی خان کے طویل عرصہ سے اقتدار میں رہنے کی وجہ سے بہت سارے ان کے معاونین اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کئی نا جائز کام کرتے ہیں اس بارے میں جناب چوہدری نثار علی خان صاحب کو علم ہوتا ہے یا نہیں میں نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر انہیں علم نہیں ہوتا تو یہ ان کی ناہلی ہے اور اگر ہوتا ہے مگر وہ ایکشن نہیں لیتے تو یہ ان کی جانب سے نا انصافی ہے چوہدری نثار علی خان خود اکثر اوقات اپنے ایک ہی مقام پر کھڑا رہنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ہمیشہ اپنے ساتھ رہنے والے آدمی کو پسند کرتے ہیں میں اپنی آج کی تحریر میں ایک ایسے ن لیگی کا ذکر کر رہا ہوں جو شروع سے جناب چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ہے ایک طویل عرصہ سے بیماری کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے اس شخص کے لئے زندگی کی ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ یہ ضرور کہا جا سکتاہے کہ وہ کب زندگی کے ساتھ جنگ ہار بیٹھے اس میں وقت بہت تھوڑا نظر آ رہا ہے

یعنی اپنے آخری وقت تک اس کا چوہدری نثار علی خان کا ساتھ نبھانا وہ ثابت کر چکا ہے میں اس وقت حیران رہ گیا جب یونین کونسل گگن کے موضع تترال کے رہائشی چوہدری عبداللہ خان سابق امیدوار برائے چئرمین میرے پاس محض اس لئے آئے کہ وہ میڈیا کے ذریعے اپنی اپیل جناب چوہدری نثار علی خان تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ ان کی فیملی کے 7افراد شیر افضل، عادل حسین، محمد نعیم، رخسانہ بی بی، عمران خان،سفیر احمد اور زکیر احمد کو 22رمضان المبارک کو گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا گیا مذکورہ زخمی افراد میں سے دو محمد نعیم اور زکیر احمد ابھی تک بسترِ مرگ پر ناکارہ حالت میں پڑے ہیں جبکہ عادل حسین اپنا ذہنی توازن کھو چکا ہے ابھی بھی ملزمان کو سکون نہیں آیا اور ان میں تنویر ، سلیم اور کلو خان نامی افراد آئے روز ان کے گھروں کے اطراف آکر فائرنگ کرتے ہیں اور گالم گلوچ کرتے ہیں متاثرین نے کئی بار ایس ایچ او چونترہ تنویر وڑائچ کو آ گاہ کیا تو وہ جواب دیتا ہے ک

ہ کیا آپ مجھے کوئی دانے دیتے ہیں کہ میں صرف آپ کے مقدمہ کو ہی دیکھتا رہوں حالانکہ اسے یہ نہیں علم کہ وہ جو تنخواہ لیتا ہے انہی لوگوں کے ٹیکس کے پیسے کی ہوتی ہے چوہدری عبداللہ خان نے بتایا کہ وہ کئی بار اپنی شکایت چوہدری نثار علی خان صاحب تک بھیج چکے ہیں لیکن یہ شکایت ان تک نہیں پہنچتی آخر وہ کون سی رکاوٹ ہے جو ان شکایات کو چوہدری نثار علی خان صاحب تک نہیں پہنچنے دیتی یہ جناب چوہدری صاحب کے لئے سوچنے کا مقام ہے ویسے چوہدری نثار علی خان سے سوال ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ کسی سے جب کوئی زیادتی ہو تو وہ شکایت ڈاک لفافے میں ڈال کر آپ کو پوسٹ کر دیا کرے اب تو چوہدری صاحب ڈاک لفاافہ بھی آپ تک نہیں پہنچ پا رہا اور وہ بھی ایسے شخص کا جو آپ کے لئے گلی گلی جا کر ووٹ مانگتا ہے آپ کی پارٹی میں چیئر مین کے لئے امیدوار تھا لوگ اس سے اپنی زیادتیوں کے ازالے کے لئے امید لگائے بیٹھے ہوتے تھے کیا آپ کی سیاست نے اسے اتنا بے بس کر دیا ہے کہ یہ بھی آپ تک نہیں پہنچ پا تا یہ خود انصاف کا منتظر ہے یہ لوگوں کے سامنے کیسے آپ کے انصاف کی تعریف کرے گا جناب چوہدری نثار علی خان اب آپ خود ہی سوچیں کہ یہ شخص کیا کرے

یہ شخص ن لیگ کے ساتھ وفا درای تو رکھے ہوئے ہے آپ اگر پورے حلقہ کی گلیاں پکی کروا دیں پورے دریائے سواں پر پل ہی پل بنا دیں سڑکو ں کے جال بچھا دیں لیکن آپ کے اپنے کارکن چوہدری عبداللہ کے خاندان کے بہنے والے خون کا مداوا نہیں ہو سکے گا یہ شخص آپ کے مدِ مقابل الیکشن لڑنے والے پی ٹی آئی کے امیدوار کرنل(ر) اجمل صابر راجہ کا قریبی رشتہ دار بھی ہے پھر بھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑ رہا اور آپ اس سے بے خبر ہیں یہاں عام آدمی یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہو گا کہ لوگوں سے اپنی برتری کم ہونے کا گلہ تو ہر الیکشن میں آپ کرتے ہیں لیکن اپنے ایک مخلص کارکن کے ساتھ ہونے والے واقعہ سے بے خبری کی حالت میں ہیں ایسے کارکنوں کا خیال کریں یہی آپ کا اثاثہ ہیں ان کا خیال کریں گے تو آپ کو برتری کم ہونے کا گلہ کرنا زیب دیتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں